Time 29 مارچ ، 2020
بلاگ

بلا عنوان

فوٹو: فائل

نان سٹاپ بولتے جانا اور نان سٹاپ لسی میں پانی ڈالتے یعنی لمبا لمبا لکھتے چلے جانا اپنے بس کی بات نہیں، اس لئے تھوڑا لکھے کو زیادہ جانیں اور سطور سے زیادہ بین السطور پر توجہ فرمائیں۔ 

پہلی بات یہ کہ جس طرح دنیا نے نائن الیون کے بعد اک کروٹ لی تھی، ’’پوسٹ کورونا‘‘ دنیا ایک سے زیادہ کروٹیں لینے پر مجبور ہوگی اور یہ کروٹیں کثیر الجہتی، کثیر المقاصد اور کثیر الشعبہ ہوں گی۔ 

دوسری بات یہ کہ کورونا آسمانی نہیں، زمینی بلکہ ’’لیبارٹری‘‘ کی پیشکش ہے، یہ ایک ایسا ’’اسکول آف تھاٹ‘‘ ہے جسے آپ ’’کانسپریسی تھیوری‘‘ قرار دے کر ڈسٹ بن میں پھینکنا چاہیں تو یہ آپ کا جمہوری حق ہے لیکن یہ بات کبھی نہ بھولیں کہ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں اس انتہائی سفاک اسٹرٹیجی کے ’’بینی فشریز‘‘ بہرحال منظر عام پر آ جائیں گے۔ 

یہ دنیا صرف تباہ کن بموں، میزائلوں، راکٹوں کے اسلحہ خانہ کا نام نہیں ہے، یہاں نادیدہ ہتھیاروں کی تیاری پر بھی بہت کام ہو رہا ہے، بہت پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف کیا آپ نے کبھی سوچا کہ خلا پر دسترس اور غلبہ کے لئے جو ٹریلینز آف ڈالرز خرچ ہو چکے اور مسلسل ہو رہے ہیں تو کیا یہ کوئی شغل میلہ ہو رہا ہے یا پکنک منائی جا رہی ہے؟ 

ایک اور پہلو بہت بھیانک اور اتنا ہی دلچسپ بھی ہے کہ کبھی کبھی’’وارداتیوں‘‘ کو بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ واردات کتنی سنگین اور اس کے اثرات کتنے لامحدود ہو جائیں گے کہ انسانی تخمینوں اور کنٹرول کی بہرحال ایک حدہوتی ہے۔ 

دوسری جنگ عظیم میں جس پائلٹ (نام یاد نہیں آرہا) نے ہیروشیما، ناگاساکی پر ’’فیٹ مین‘‘ اور ’’لٹل بوائے‘‘ نامی ایٹم بم گرائے اسے بریف کیا گیا تھا کہ یہ کتنے مہلک ہیں۔ 

بتایا گیا تھا کہ بم ڈراپ کرنے کے بعد کتنی رفتار سے بھاگنا ہے، مخصوص عینکیں لگا کر بھی نیچے نہیں دیکھنا لیکن پائلٹ نے ساری ہدایات کو لائٹ ہی لیا لیکن بعد ازاں خود اعتراف کرتے ہوئے لکھا کہ ’’جب میں نے بم ڈراپ کیا تو جہاز بہت بری طرح اوپر کی طرف اچھلا جیسےبہت زیادہ بوجھ سے چھٹکارا مل گیا ہو‘‘ پائلٹ کہتا ہے کہ اس جھٹکے کے بعد میں ریڈالرٹ حالت میں چیخا کہ فوراً عینکیں لگاؤ۔ 

خود میں نے لمحہ بھر کے لئے نیچے دیکھا تو ’’روشنی‘‘ کی تاب نہ لا سکا‘‘۔ قارئین!پائلٹ کا یہ بیان حرف بہ حرف نہیں، اس کا مفہوم ہے کیونکہ یہ کتاب پڑھے سالوں بیت گئے۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کبھی کبھار کرنے والوں کو بھی درست انداز نہیں ہوتا کہ بات کہاں سے کہاں نکل جائے گا، دنیا میں سبقت اور غلبہ کی دوڑ انسانی حدود سے نکل کر شیطانی حدود میں داخل ہوچکی ہے۔ 

امریکا اور سوویت یونین کی ’’سرد جنگ‘‘ کے بعد ’’نیم گرم‘‘ جنگ کا مرحلہ شروع ہے جس کے بعد ’’گرم جنگ‘‘ کا راستہ ہی باقی رہ جاتا ہے، خلا میں ایسا کیا ہے جس کے لئے سردھڑ کی ہی نہیں کھربوں ڈالرز کی بازی بھی لگائی جارہی ہے اور امریکن کہہ بھی چکے ہیں کہ وہ خلا میں اپنی فیصلہ کن برتری قائم رکھنے پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ 

وحشیانہ غلبہ کے حصول کی جنگ تو جاری ہے لیکن یہ بھی ’’کورونا کی طرح نہ کسی کو سنائی دے رہی ہے نہ دکھائی دے رہی ہے، یہاں مجھے اپنا ہی ایک کالا قول یاد آ رہا ہے ’’میں حیران ہوں کہ انسانوں کی موجودگی میں انسان زندہ کیسے ہے۔‘‘ 

مختصراً یہ کہ کورونا کے بعد اس کے بالواسطہ یا بلاواسطہ بینی فشری یا بینی فشریز پر نظر رکھیے۔ پوری نہ سہی، آدھی پونی بات ضرور سمجھ آ جائے گی۔آخر پہ چند معمول کی باتیں۔ 

آج کل ’’توبہ‘‘ اور ’’دعا‘‘ کا موضوع بہت مقبول ہے تو بہت اچھی بات لیکن لاتعداد ’’حضرات‘‘ میں سے دو چار تو ایسے بھی ہوں جو ہم جیسے جاہلوں کو ان الفاظ کے معنوں سے متعارف کرائیں ، ان کا مطلب سمجھائیں۔

دوسری طرف یہ فیصلہ کہ بچوں کو 31 مئی تک چھٹیاں دے دی گئیں، ایک صائب فیصلہ، لیکن اس کے فوراً بعد جون اور جولائی کا مشہورمہینہ یعنی ’’بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ‘‘ تو اس پر بھی ابھی سے غور کرلیں کہ سخت گرمی کی پیش گوئی سننے میں آ رہی ہے۔ 

تعلیمی اداروں میں آن لائن کلچر پر بھی سوچ بچار کرلیں۔گھروں میں ٹکنے کے احکامات کو ہوا میں اڑانے والوں کو حوالاتوں یا جیلوں میں ڈالو گے تو وہاں مجمع، ہجوم نہ ہوگا؟آخر یہ اک عجیب تضاد، سیلی بریٹ کر رہے ہیں کہ سٹیٹ بینک نے شرح سود میں کمی کردی۔ 

واہ ........ جس ملک کو ’’ریاست مدینہ‘‘ بنانے کے خواب دیکھے جارہے ہیں، وہاں شرح سود میں کمی پر بغلیں بجائی جا رہی ہیں، یاد رکھو دنیا میں دو ہی قسم کے لوگ ہیں۔اول وہ جو دنیا کا نظام بناتے اور چلاتے ہیں۔دوم وہ جو اس کے غلام ہوتے ہیں، غلام رہتے ہیں اور چاہیں بھی تو غلامی کی زنجیریں نہیں کاٹ سکتے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔