31 مارچ ، 2020
آبِ حیات میں مہلک ترین زہر ملا کر پینے کا نتیجہ کیا ہوگا؟آبِ حیات اثر کھو بیٹھے گا یا زہر کا زہریلا پن ضائع ہو جائے گا؟ یہی زندگی ہے اور یہی زندگی کا خلاصہ ہے۔ عقیدہ کا رُخ مشرق کی طرف، اعمال کا رُخ مغرب کی طرف تو سمجھ لو کہ سانس چلنے کے باوجود نہ زندوں میں نہ مردوں میں اور شاید جینے مرنے کے درمیان معلق رہنا ہی اذیت کی انتہا اور جہنم کی سزا ہے۔
دنیا کا ہر مذہب بنیادی اخلاقیات، قدروں پر سو فیصد متفق لیکن دیکھنے میں تضادات کے شہکار۔ عقائد اور اعمال میں جنگ، آبِ حیات اور زہر میں کشمکش اور وہ بھی ایسی کہ نہ خدا ملے نہ وصالِ صنم نصیب ہو۔رب العالمین سب کو اپنی پناہ میں رکھے کہ وہی تو عالمین کی پہلی اور آخری پناہ گاہ ہے۔
رات کی کوکھ میں سویرا، اندھیرے کی گود میں روشنی، جنگ کے پہلو میں امن اور مرض کے دامن میں دوا بھی ہوتی ہے۔ بدترین حالات کے ساتھ بہترین کے امکانات بھی لامحدود ہوتے ہیں بشرطیکہ کوئی دیکھنے، سوچنے، سمجھنے والا بھی ہو۔
کورونا وائرس عہدِ حاضر کا ولن ہے لیکن ولن کے بغیر بھی تو کہانی آگے نہیں بڑھتی اور ولن سے صرف لڑنا ہی نہیں ہوتا اس سے سبق سیکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ موجودہ صورتحال کے ہر سنگین پہلو پر سب کی نظر ہے لیکن حکومت سے لیکر عوام تک شاید اک سنگین ترین پہلو یکسر نظرانداز ہو رہا ہے اور وہ یہ کہ ’’ہاؤس اریسٹ‘‘ ہوئے گھروں کے قیدی نفسیاتی مریض بنتے جا رہے ہیں، جو قابلِ فہم ہے۔
ایک، دو، دس نہیں بہت سے لوگ یہ بات میرے ساتھ شیئر کر رہے ہیں کہ آؤٹ ڈور سرگرمیوں کے شوقین ’’ان ڈور‘‘ ہونے پر غصہ، فرسٹریشن اور چڑچڑے پن کے مریض بنتے جا رے ہیں، گھریلو چخ چخ میں بتدریخ اضافہ ہو رہا ہے۔
منطقی بات ہے کہ جنہیں تنہائی، گوشہ نشینی کی سرے سے نہ عادت، نہ کوئی تربیت تو ان کی طبیعت پر یہ سب کچھ بہت گراں گزر رہا ہوگا، اس لئے کچھ ہلکی پھلکی ’’ٹپس‘‘ ایک گزشتہ کالم میں پیش کی تھیں اور آج صرف یہ کہنا ہے کہ بچپن کے ایک کتابی کردار ’’مسٹر چیئرفل‘‘ کو یاد کریں جو منفی ترین صورتحال میں سے بھی کوئی نہ کوئی بیحد مثبت پہلو ڈھونڈ نکالتا تھا مثلاً کچھ اس طرح سوچنے میں کیا برا ہے کہ یہ کورونا ہے تو بہت خبیث، عیار، مکار لیکن ....ایسا تو نہیں کہ یہ ہمیں تمیز، تہذیب، ترتیب، نظم و ضبط، احتیاط، اعتدال، آداب، زیست سکھا رہا ہو، حدود و قیود، قاعدے قانون یاد دلا رہا ہو۔
ملنے ملانے سے لیکر سیر سپاٹے تک، انجوائے کرنے سے شاپنگ کرنے تک میں اعتدال کے سبق سکھا رہا ہو کہ ہمیں تو عبادتوں میں بھی اعتدال کا حکم تھا۔ آئی نا یاد وہ صفائی جسے نصف ایمان کہا گیا اور ہم نے گھروں سے گلیوں تک اس نصف ایمان کی دھجیاں کچھ یوں بکھیریں کہ غلیظ پانی سے سبزیاں سیراب کرنے لگے، کیمیکلز سے دودھ بنانے لگے، مردہ جانوروں کی آلائشوں سے خوردنی تیل کشید کیا، کمزوروں کی جائیدادوں پر قبضے جمائے، میرٹ کو بار بار مارا اور زندہ کیا، ملکی وسائل لوٹ لوٹ کر بیرونِ ملک بیش قیمت جائیدادیں بنائیں اور ایسا کرنے والوں کو ’’ان داتا‘‘ المعروف ’’کھاتا اور لگاتا‘‘ بھی قرار دیا۔
آج اگر کورونا انسانی زندگی کا بیلنس آئوٹ کرنے والوں پر قدرت کا بیلنسنگ ایکٹ نافذ کر رہا ہے تو اس کی بھی تھوڑی سی تو سننی چاہئے۔آبادیاں، ملک، شہر اپنی حدود، سرحدوں سے تجاوز کرتے چلے گئے تو کسی نے تو ان کی واپسی کا انتظام و اہتمام کرنا تھا۔ کورونا وائرس نہیں وارننگ ہے۔
چشمِ زدن میں کیسے کینڈے میں آئے۔ ترقی یافتہ، ترقی پذیر، غیرترقی یافتہ سب کو قطار میں کھڑا کرکے یاد دلایا جا رہا ہے کہ اے اولادِ آدم! زیر بن زبر نہ بن ورنہ تیرے پیش پڑ گیا تو گھروں میں دبک جانے پر بھی خیر نہ ملے گی۔
کیسا ’’یونیورسل آرڈر‘‘ آیا کہ مسجد، مندر، چرچ، گورد وارہ، سٹوپا سب بند۔ سیاسی، سماجی، روحانی، تجارتی، نفسانی سب اجتماع بین ... متحد ہونے کی اجازت نہیں، مصافحے، معانقے چھوڑو، اپنی اولادوں کو بھی ہاتھ نہیں لگا سکتے ... ایک دوسرے کو ہاتھ دکھانے والو، ہاتھ دھو اور خبردار اپنا ہاتھ اپنے منہ کو بھی نہیں لگانا۔
شاپنگ مالز سے لیکر کھوکھے تک بند۔ قومی اسمبلی سے جنرل اسمبلی تک، میچوں سے لیکر جنازوں تک سارے ظواہر بند تو بھائی! آنکھیں کھولو ’’سب کچھ ہوا جو بند تو آنکھیں ہی کھول لے‘‘۔
مصروفیت کا رونا رونے والوں کو کورونا فرصت عطا کر رہا ہے، جپھیاں ڈالنے والوں کو جدائیاں یاد دلا رہا ہے۔ عرصہ پہلے میرا تکیہ کلام تھا کہ حکمرانو! کچھ اور نہیں تو لوگوں میں بھوک ہی برابر بانٹ دو۔ لو وہ بیماری برابر بانٹ رہا ہے ...
واہ کرنسی نوٹوں کیلئے سب کچھ بیچ دینے والے کرنسی نوٹوں کو ہاتھ لگاتے ڈر رہے ہیں۔ اب کہو میرا جسم میری مرضی، میرا ماسک میری مرضی، میری چھینک میری مرضی، میرا نزلہ میری مرضی، میرا سینی ٹائیزر میری مرضی، میری جپھی میری مرضی، آخر پہ اپنا ایک تازہ ترین شعر؎لینا ایک نہ دینے دو جب تک ہو تم، تب تک ہو مرضی صرف مولا کی، باقی سب موالی ازم۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔