31 مارچ ، 2020
پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق کا کہنا ہے ہر دور کی طرح اس دور میں بھی سازشی مفروضوں پر باتیں ہوتی ہیں، اگر فواد عالم کی ٹیم کو ضرورت ہوئی تو اسے ضرور کھلایا جا ئے گا۔
انہوں نے کہا کہ کپتان 11 رکنی ٹیم میں شامل ہوتا ہےکپتان کی موجودگی میں بھی میں ہر چیز کی ذمے داری قبول کرتا ہوں، کوچ اور چیف سلیکٹر کی حیثیت سےمیں نے اپنے لیے کوئی ڈیڈ لائن مقرر نہیں کی لیکن میرے لیے پاکستان ٹیم کے ساتھ ہر دن اہم ہے، میں یہ نہیں سوچ رہا کہ بورڈ ایک سال بعد میرے لیے کیا فیصلہ کرے گا۔
سابق کپتان نے پاکستان کرکٹ بوڑ (پی سی بی) کی جانب سے منعقد کی گئی ویڈیو کانفرنس میں پونے دو گھنٹے تک صحافیوں کے سوالات کے جواب دیے۔
ملک بھر کے صحافیوں نے مصباح سے جارحانہ اور چبھتے ہوئے سوالات پوچھے لیکن وہ تحمل سے جواب دیتے رہے۔
مصباح الحق نے کہا کہ میری نیت صاف ہے اور کوشش کررہا ہوں کہ پاکستان ٹیم کو بلندیوں کی جانب لے کر جاؤں، نہ مجھے حارث سہیل کی میچ فیس ملے گی اور نہ میرے حصے میں فواد عالم کے ریکارڈ آئیں گے، جو کھلاڑی پاکستان ٹیم کی ضرورت ہیں اسے ضرور موقع دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ محمد حفیظ کو شرجیل خان کے بارے میں میڈیا میں بیان بازی سے گریز کرنا چاہیے تھا،جب آپ اس کھلاڑی کے ساتھ ڈریسنگ روم شیئر کررہے ہوں تو ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیے،محمد حفیظ کی تجویز پر سوچ و بچار کی ضرورت ہے، ہمارے ملک میں تعلیم کی کمی ہے اسی لیے بہت سارے کھلاڑی پیشکش کو رپورٹ نہ کرنے پر پھنس جاتے ہیں، میڈیا پر حساس معاملات کو ڈسکس کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
مصباح نے کہا کہ وسیم خان اور حفیظ کی بات چیت میں غلط فہمیاں دور ہوگئی ہوں گی،حفیظ کے بارے میں وسیم خان کے ردعمل سے یہ تاثر لینے کی ضرورت نہیں ہے کہ مستقبل میں وہ پاکستان ٹیم میں شامل نہیں ہوں گے۔
فواد عالم کے بارے میں مصباح نے کہا کہ کوئی کسی کے لیے برا نہیں سوچتا، ہم کوشش کرتے ہیں کہ بہتر کھلاڑیوں کو کھلائیں، زندگی میں سازشی مفروضے چلتے رہتے ہیں، ٹیم کے لیے جو بہتر ہے اسے کھلایا جاتا ہے اور میں چاہتا ہوں وہ ٹیم کھیلے جو فتح حاصل کرے۔
مصباح نے کہا کہ مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے کہ ایک سال بعد پی سی بی میری کارکردگی کا کیا تجزیہ کرے گا میں اپنی ذمے داریوں کو محسوس کرتا ہوں اور روزانہ کوشش کرتا ہوں کہ اپنے کام سے ٹیم میں کوئی فرق ڈال سکوں، ستمبر میں جب میں نے چارج لیا تھا تو ہمیں کچھ چیلنجز کا سامنا تھا، سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ ٹیسٹ کرکٹ میں کس طرح واپس آنا ہے۔
چیف سلیکٹر نے کہا کہ ہمارے لیے مثبت پہلو نوجوان شاہین شاہ اور نسیم شاہ کی کارکردگی تھی، ٹی ٹوئنٹی میں بھی نوجوانوں کی کارکردگی اچھی رہی، بابر اعظم کی کپتانی بہتری کی جانب جارہی ہے۔