03 اپریل ، 2020
میں سوچتا ہوں، آپ بھی سوچئے۔ یہ کس طرح کی وبا ہے اور اس نے یہ کیا انداز نکالا ہے۔ یوں تو یہ سارے عالم میں پھیلی ہے اور ہر ایک کو مارے ڈالتی ہے مگر کیا کوئی ایسا بھی جری ہے جو اس وبا کو نیچا دکھا رہا ہے۔
میں سمجھاتا ہوں اپنی بات۔ پاکستان، بھارت، بنگلا دیش اور میانمار (برما) بھی اسی دنیا کے علاقے ہیں پھر یہ کیا ہے کہ ملکوں کی اس پٹی میں کورونا کے تیور اور طرح کے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ جس روز یورپ میں سات، آٹھ سو مریض مرتے ہیں، اِن چار ملکوں میں صرف سات آٹھ ہلاکتیں ہوتی ہیں۔
جس دن امریکا سے نو سو یا ہزار کے مرنے کی خبر آتی ہے، پاکستان سے میانمار تک ان ملکوں کی پٹی سے دس بارہ ہلاکتوں کی اطلاع آتی ہے۔ وہی وائرس ہے، وہی اس کا ہتھیار ہے، اسی طرح وار کرتا ہے اور اسی ڈھب سے مار ڈالتا ہے۔ تو پھر کیا سبب ہے کہ ہماری طرف یہ کسی طوفانی جھکڑ کی طرح نہیں آیا ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم مطمئن ہوکر چین سے بیٹھ رہیں۔ وہ جو کہتے ہیں، غلط نہیں کہتے کہ دشمن کو کبھی کمزور نہ جانو۔ یہ عین ممکن ہے کہ اگر ہم نے کہیں لاپروائی دکھائی تو کسی گوشے میں چپ سادھے بیٹھا یہ جلاد صفت جرثومہ دانت پیستا ہوا ہم سے ایسا انتقام لے سکتا ہے، جو آنے والی کتنی ہی نسلیں یاد رکھیں گی۔ بہرحال سوچنے میں کسی کا کیا جاتا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہماری طرف جان کے جانے میں وہ شدت کیوں نہیں جو یورپ یا امریکا میں ہے۔ اِس پر ایک تازہ خبر کا حوالہ دوں گا جو میں نے حال ہی میں پڑھی ہے۔ میانمار میں جس کی آبادی پانچ کروڑ سے زیادہ ہے، پہلے تو یہ وبا پہنچی ہی نہیں۔ پھر مارچ کے آخری ہفتے میں کورونا کا ایک کیس ہوا اور اپریل کے پہلے ہفتے میں ایک ہلاکت کی تصدیق ہوئی۔
اس پر حکومت کے ایک اہلکار کا بیان خبروں میں آیا ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ میانمار میں کورونا نے زور کیوں نہیں پکڑا۔ اہل کار نے کہا کہ ملک کے عوام کا طرزِ زندگی اور ان کی خوراک اس کا سبب ہو سکتی ہے۔ اس کا اشارہ بودھوں کی سادہ زندگی کی طرف ہو سکتا ہے اور رہ گئی بات خوراک کی تو ہو سکتا ہے اس کی اشارہ پڑوسی ملک چین کی طرف ہو جہاں ایک عام خیال ہے کہ چین والے ہر الا بلا کھا جاتے ہیں جیسا کہ شروع میں عام لوگ یہ کہتے ہوئے سنے گئے تھے کہ چین والے چوہے، سانپ، کتّے اور چمگادڑ تک کھا لیتے ہیں جس کے سبب یہ نئی قسم کا وائرس دنیا پر بلا بن کر نازل ہوا ہے۔
میرا نظریہ پوری طرح نہیں تو آدھی طرح اس سے ضرور متفق ہے۔ کورونا کے رویّے اور طرزِ عمل کو دیکھ کر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وائرس فضا میں اڑتی ہوئی کوئی بےجان مخلوق نہیں۔ یہ ہر دوسری مخلوق کی طر ح نہ صرف زندہ بلکہ جیتی جاگتی وبا ہے جسے دوسری مخلوق کی طر ح زندہ رہنے اور اپنی نسل بڑھانے سے غرض ہے۔
اسے بھی اپنی جان پیاری ہے چنانچہ وہ اُن ہی بستیوں اور آبادیوں پر نازل ہوتی ہے جہاں کی فضا اور آب و ہوا اسے موافق آتی ہے۔ یہی بات اور سادہ لفظوں میں یوں کہی جا سکتی ہے کہ یہ وائرس کثافت سے پاک، صاف، شفاف اور اجلی فضا میں خوشی خوشی پھلتا پھولتا ہے۔ جہاں تازہ ہوا ہو، شفاف پانی بہتا ہو، ستھری ہوا سرسراتی ہو وہاں وائرس آرام سے ہاتھ پاؤں پھیلا کر فروغ پاتا ہے اور نہال ہو کر اپنی نسل بڑھاتا ہے۔
اس کے برعکس جہاں غلاظت ہو، گندگی ہو، کثافت ہو، غلیظ بستیوں کی ابلتی نالیوں میں نجاست بہتی ہو جس میں نیم برہنہ بچے کھیلتے ہوں اور جن کی فضاؤں اور ہواؤں میں پہلے ہی تگڑے، ہٹّے کٹّے اور جغادری جراثیم منڈلا رہے ہوں وہاں کورونا جیسے نوزائیدہ جرثومے کا گزر کیوں کر ممکن ہے۔
سارا کا سارا معاملہ ہمارے اندر موجود بچاؤ اور دفاع کے نظام کا ہے جسے ہم مدافعتی نظام کہتے ہیں۔ ہمارے ارد گرد موجود فضا میں اتنے زیادہ وائرس معلّق رہتے ہیں کہ ان کی جرثومہ شماری ممکن نہیں۔
یہ سارے کے سارے کسی نہ کسی راستے ہمارے جسم میں پہنچ جاتے ہیں جہاں ہمارا مدافعتی نظام ان سے جنگ کرتا ہے اور نظام توانا ہو تو حملہ آور وائرس کو شکست دے دیتا ہے۔ یہی جنگ ہمیں صحت مند رکھتی ہے۔
اس جنگ کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہماراد فاع کرنے والے خلیے ان سے لڑنا سیکھ جاتے ہیں اور توانا ہو جاتے ہیں۔ اس پر مجھے وہ دن یاد آتے ہیں جب ایک مہم چلی تھی جس میں کہا جاتا تھا کہ اپنے ارد گرد ماحول کو ضرورت سے زیادہ صاف ستھرا نہ کرو۔ حفظانِ صحت کا بہت زیادہ خیال رکھنا بھی اچھا نہیں کہ اس سے جسم کا مدافعتی نظام کمزور ہو جاتا ہے مگر یورپ اور امریکا کے مغربی معاشروں میں ماحول کو صاف اور پاکیزہ بنانے پر اتنا زور ہے کہ ان لوگوں کا دفاعی نظام کمزور ہو جاتا ہے اور اس بات پر یقین نہیں آتا کہ یہاں ہر سال نزلے زکام اور انفلوائنزاسے کئی کئی ہزار لوگ مرتے ہیں۔ (ایک ہم ہیں کہ جوشاندے سے کام چلا لیتے ہیں)۔
جراثیم کے دھاوا بولنے کی بات پر میرا ذہن پاکستان کے ان لوگوں کی طرف جاتا ہے جو لاک ڈاؤن کے دوران بھوکے اور نادار لوگوں اور دہاڑی دار محنت کشوں کو کھانے پینے کا سامان دینے باہر سڑکوں پر آگئے۔ بس غضب ہو گیا۔
وہ تگڑے، توانا اور جغادری پیشہ ور لٹیرے جو شاید ان کی تاک میں بیٹھے تھے، امداد تقسیم کرنے والوں پر ٹوٹ پڑے اور کھانے پینے کے سامان کے تھیلے اچک کر لے گئے اور لوٹنے والے مجمع کے پیچھے وہ سفید پوش جو سرجھکائے کھڑے تھے جیسے خالی ہاتھ آئے تھے، ویسے ہی خالی دامن لئے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ کچھ دیر بعد وہ لوٹے ہوئے تھیلے علاقے کی دکانوں پر فروخت کے لئے آگئے۔ نہیں سدھریں گے یہ لوگ، کبھی نہیں سدھریں گے۔ ان کا تو کورونا وائرس بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔