06 اپریل ، 2020
لاہور: وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے آٹا و چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ جاری ہونے کے بعد وزیر خوراک پنجاب سمیع اللہ چوہدری نے استعفیٰ دے دیا۔
صوبائی وزیرخوراک نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ملاقات کی جس میں انہوں نے اپنا استعفیٰ پیش کیا۔
استعفے میں انہوں نے مؤقف اپنایا کہ 'مجھ پر الزام ہےکہ میں محکمے میں ریفارمز نہیں کرسکا لہٰذا جب تک الزامات کلیئر نہیں ہوتے حکومتی عہدہ نہیں لوں گا'۔
سمیع اللہ چوہدری نے مزید کہا کہ 'وزیراعظم عمران خان کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ایسی ہزاروں وزارتیں قربان کرنے کو تیار ہوں'۔
صوبائی وزیرخوراک نے لکھا کہ چند روزقبل محکمے میں اصلاحات نہ کرنے سے متعلق بے بنیاد الزامات لگائے گئے لہٰذا رضاکارانہ طور پر مستعفی ہونے کا اعلان کرتا ہوں۔
انہوں نے استعفے میں مزید کہا کہ ہر فورم پر خود کو احتساب کے لیے پیش کرنے کو تیار ہوں۔
بعدازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبائی وزیر خوراک کا استعفیٰ منظور کرلیا جبکہ کمشنر ڈیرہ غازی خان و سابقہ سیکرٹری خوراک نسیم صادق کی عہدے سے علیحدگی کی درخواست بھی قبول کرتے ہوئے انہیں آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی (او ایس ڈی) بنادیا گیا۔
واضح رہے کہ نسیم صادق گندم بحران کے دنوں میں سیکرٹری خوراک تھے اور اس وقت کمشنر ڈیرہ غازی خان کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
اس کے ساتھ ہی سابق ڈائریکٹر خوراک ظفر اقبال کو بھی او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ 4 اپریل کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے آٹا و چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لائی گئی تھی۔
تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ملک میں چینی بحران کاسب سے زیادہ فائدہ حکمران جماعت کے اہم رہنما جہانگیر ترین نے اٹھایا، دوسرے نمبر پر وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی اور تیسرے نمبر پر حکمران اتحاد میں شامل مونس الٰہی کی کمپنیوں نے فائدہ اٹھایا۔
تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی آٹا بحران کی اہم وجہ رہی۔
رواں سال جنوری اور فروری میں ملک بھر میں گندم کے بحران کے باعث آٹے کی قیمت 70 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔
وزیراعظم عمران خان نے آٹے کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے گندم ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت کی تھی۔
اس حوالے سے وزیراعظم نے بحران کی وجوہات کا پتہ لگانے کے لیے تحقیقاتی کمیٹی قائم کی تھی اور وزراء کو بحران کی وجوہات جاننے کا ٹاسک سونپا تھا۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان کو ملک میں جاری آٹا بحران سے متعلق رپورٹ بھجوائی گئی تھی جس کے مطابق آٹا بحران باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت پیدا کیاگیا جس میں افسران اور بعض سیاسی شخصیات بھی ملوث ہیں۔
آٹے کے ساتھ ملک میں چینی کا بحران بھی سر اٹھانے لگا تھا جس کے باعث وفاقی حکومت نے چینی کی برآمد پر فوری طور پر پابندی لگ تھی جب کہ وزیر اعظم نے فروری کے مہینے میں ایف آئی اے کو ملک میں چینی اور آٹے کے بحران سے متعلق مکمل تفتیش کر کے رپورٹ جمع کروانے کے احکامات دیے تھے۔