بلاگ
Time 08 اپریل ، 2020

کورونا وائرس اور میثاقِ معاشرت

فوٹو فائل—

ہر شر میں ایک خیر بھی چھپا ہوتا اور ہر آزمائش مواقع بھی لے کر آتی ہے۔ کورونا وائرس جہاں بڑی آزمائش ہے وہاں اس نے ہمیں یہ مواقع بھی فراہم کئے ہیں کہ ہم اپنی معاشرتی برائیوں پر قابو پاسکیں اور پاکستان کو انسانوں کے بھیڑ کے بجائے ایک منظم اور شائستہ معاشرے میں بدلنے کی کوشش کریں اور یہ بات کسی کو اچھی لگے یا بری لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس حوالے سے پاکستان جیسے ملک کے معاملے میں ہماری مذہبی جماعتیں اور دینی شخصیات بنیادی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ 

بلاشبہ سیاسی لحاظ سے پاکستانیوں کی اکثریت کبھی مذہبی جماعتوں کے ساتھ نہیں رہی لیکن دوسری طرف یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ ہمارے معاشرے کے ننانوے فی صد لوگ مذہبی اور معاشرتی حوالوں سے ان مذہبی جماعتوں اور شخصیات میں سے کسی نہ کسی کو فالو کرتے ہیں جس سے ہمارے معاشرے کا مجموعی دینی اور معاشرتی نظام تشکیل پاتا ہے۔ 

ہمارے جرنیل ہوں، سیاسی رہنمائوں ہوں یا بیوروکریٹ ، مذہبی حوالوں سے وہ کسی نہ کسی مذہبی شخصیت ہی کے پیروکار ہوتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان بھی نماز جمعہ کے اجتماعات پر پابندی کا فیصلہ اس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک کہ بعض بڑے مفتی صاحبان کا فتوی سامنے نہ آئے ۔بلکہ ہمارے وزیراعظم تو اہم سیاسی اور حکومتی فیصلے بھی ایک مبینہ روحانی شخصیت کے مشورے سے کرتے رہتے ہیں۔ 

اسی طرح جب مذہبی طبقہ خود تقسیم ہے تو حکومت ہزار کوششوں کے باوجود بھی رویت ہلال سے متعلق سب پاکستانیوں پر اپنا فیصلہ نافذ نہیں کروا سکتی۔ کورونا کے تدارک کے لئے ہم جس سوشل ڈسٹینسنگ کی بات کررہے ہیں، اس کو اس کی روح کے مطابق اس وقت تک عملی نہیں بنایاجاسکتا جب تک تمام دینی جماعتیں اور شخصیات بھرپور کردار ادا نہ کریں۔ 

میں ا س حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوں کہ مذہبی جماعتیں اور شخصیات حد سے زیادہ سیاست زدہ ہو گئی ہیں۔ یا تو وہ اکٹھی بیٹھتی نہیں اور اگر بیٹھ جائیں تو اپنے اپنے سیاسی، مسلکی اور ذاتی حصار سے نہیں نکل سکتیں لیکن اب کورونا وبا کی وجہ سے جو فضا پیدا ہو گئی ہے اس کی وجہ سے کوئی بھی اکٹھے بیٹھنے سے انکار نہیں کرسکے گا بلکہ اس فضا کی وجہ سے جے یو آئی اور جماعت اسلامی جیسی اپوزیشن کی جماعتیں بھی حکومت کو تعاون کی غیرمشروط آفر کرچکیں جس سے بدقسمتی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ 

چنانچہ میری تجویز ہے کہ کوئی مذہبی جماعت یا شخصیت آگے بڑھ کر دینی جماعتوں کے سربراہوں، اہم دینی شخصیات، گدی نشینوں اور ہر مسلک کے اکابر کا اجلاس بلائے اور سب کے اتفاق رائے سے ایک فتویٰ اور میثاق معاشرت پر دستخط کیا جائے۔ اس اجلاس میں وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹروں اور ماہرین معیشت کی طرف سے بریفنگ کا اہتمام بھی کیا جائے تاکہ سب پر اس وبا کے طبی اور بعدازاں پڑنے والے معاشی اثرات بھی واضح ہوں۔

دینی شخصیات اور علمائے کرام کے اس اجلاس سے ایک متفقہ فتویٰ آنا چاہئے کہ جس میں جمعہ کے اجتماعات اور باجماعت نمازوں کے بارے میں واضح موقف ہو کہ جب تک یہ وبا قابو میں نہیں آتی تب تک کیا انتظام ہونا چاہئے۔ اسی طرح اسی فتویٰ میں مساجد کے آئمہ کو بھی ہدایات دی گئی ہوں۔ اس فتوی میں درگاہوں اور مزارات سے متعلق بھی لائحہ عمل تیار ہونا چاہئے اور ان کے منتظمین کے لئے بھی ہدایات ہونی چاہئے۔ 

تبلیغی جماعت کے اکابرین کی مشاورت سے اس دوران تبلیغی سرگرمیوں اور اجتماعات کے لئے بھی ہدایات تیار ہونی چاہئے۔ جنازوں کے حوالے سےدو طرح کی مشکلات سامنے آرہی ہیں۔ ایک طرف سوشل ڈسٹینسنگ کا خیال نہیں رکھا جارہا اور دوسری طرف کورونا کے نتیجے میں مرنے والی میت سے متعلق بعض غلط تصورات بھی وابستہ کئے گئے ہیں۔اس حوالے سے بھی ایک متفقہ فتویٰ سامنے آنا چاہئے۔

غالب امکان یہ ہے کہ اس سال حج بھی نہ ہوسکے جبکہ بہت سارے لوگ عمرہ کے ارادے کے باوجود نہیں جاسکیں گے ۔ اس اجلاس میں اس حوالے سے بھی رہنمائی کی جائے کہ کیا عمرہ کے لئے مختص کی گئی رقم کورونا متاثرین پر خرچ کی جاسکتی ہے یا نہیں۔ ہمارے ہاں ایک مسئلہ یہ ہے کہ ریاست اور حکومت کو ایک دوسرے سے خلط ملط کردیا جاتا ہے۔ 

حکومت سے اگر اختلاف ہو تو اس صورت میں ریاست سے تعاون کو بھی گناہ سمجھا جاتا ہے۔ اس مشترکہ فتوے میں ریاست اور حکومت کے فرق کو واضح کرکے عوام کی رہنمائی ہونی چاہئے کہ ڈاکٹر، نرسز، پولیس یا فوجی کی اگر کہیں ڈیوٹی لگی ہے تو اسے ریاست کا نمائندہ سمجھا جائے اور اس حوالے سے لوگوں کی رہنمائی کی جائے کہ ان سے جنگ نہیں بلکہ تعاون دین کا بھی حکم ہے۔

پاکستان میں شادی بیاہ پر فضول خرچیاں ایک وبا کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔ ایک طرف لوگ بھوکوں مررہے ہیں لیکن دوسری طرف شادی بیاہ اور دیگر رسوم ورواج پر پیسہ بہایا جاتاہے۔ دینی شخصیات کے اس اجلاس میں شادی بیاہ اور دیگر رسوم کے حوالے سے بھی قوم کی رہنمائی کی جائے۔ ہمارے ہاں لوگ بازار میں یا کسی دفتر کے آگے قطار بنانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں حالانکہ ہمارا دین نظم و ضبط کا درس دیتا ہے۔ کورونا کے تناظر میں ہر جرگہ پر قطار بنانا اور فاصلہ رکھنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔ اگر ہماری دینی شخصیات لوگوں کو اس بات پر قائل کرسکیں تو شاید پھر بازاروں کو بند رکھنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔

اسی طرح اس اجلاس میں کورونا کے حوالے سے مذہبی جماعتوں کی فلاحی سرگرمیوں کو بھی مربوط شکل دی جا سکتی ہے اور یہ تقسیم کار کی جا سکتی ہے کہ کون کون لوگ امدادی کام کریں اور کون کورونا کے تناظر میں وفود بنا کر دعوت واصلاح کا کام کرے۔ مثلاً اگر وفود بناکر لوگوں کو دکانوں کے سامنے قطار بنا کر دکانوں سے باری باری خریداری پر قائل کر لیا جائے تو حکومت کو بازار کھلوانے میں آسانی ہوگی۔

یہ تو وہ چند ایشوز اور تجاویز ہیں جو میرے ذہن میں آئی ہیں لیکن ضروری نہیں کہ مذہبی شخصیات کا اجلاس انہی ایشوز پر غور کرے۔ اس ایجنڈے میں مزید کئی امور شامل کئے جا سکتے ہیں۔ اب وقت ہے کہ یہ لوگ سیاسی اور فقہی ایشوز کے ساتھ معاشرتی مسائل کو اپنی توجہ کا مرکز بنالیں اور باہمی مشاورت سے ایک میثاق معاشرت پر دستخط کئے جائیں۔ دینی حلقوں نے اتفاق رائے سے یہ خدمت انجام دی تو اس پر عملدرآمد کرنا ہر شہری کی اخلاقی اور دینی ذمہ داری بن جائے گی اور ریاست کو بھی ان پر عمل درآمد کرانے کا حوصلہ مل جائے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔