10 اپریل ، 2020
لاک ڈاؤن، ناک ڈاؤن کیوں؟لاک ڈاؤن کہاں کہاں ناک ڈاؤن نہیں ہوا؟لوگ سنتے سمجھتے کیوں نہیں؟معاملات کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیتے؟لوگوں کو نہ اپنی زندگیوں کی پروا نہ دوسروں کا خیال؟
ایسے بہت سے سوال محوگردش ہیں تو چلئے اوکھے سوکھے ہو کر ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہوا غالباً یہ ہے کہ ابتدائی قائدین خصوصاً بابائے قوم کے بعد ہم پر زیادہ تر مسلط ہی وہ لوگ رہے جو قوم کو تعلیم یافتہ، باشعور، متوازن، مہذب، منطقی، منظم اور حقیقت پسند دیکھنا ہی نہیں چاہتے تھے اور وجہ بہت سادہ تھی کہ اگر قوم باشعور اور ڈسپلنڈ ہوتی تو پھر یہ خود نہ ہوتے اور ان کے نسل درنسل ’’الیکٹ ایبلز‘‘ بھی باقی نہ رہتے ورنہ اک نئی قوم کے نام نہاد قائدین کیلئے یہ جاننا کتنا مشکل تھا کہ تعلیم و تربیت کو اولین ترجیح بنانا ضروری ہے اور مجبوری بھی لیکن انہیں ’’آوارہ ہجوم‘‘ اتحاد، اعتقاد، نظم وضبط سے عاری آبادی بطور ووٹ بینک درکار تھی جو ان کے اشارۂ ابرو پر یہ سوچ کر ناچتی رہے کہ اپنی مرضی سے ناچ رہی ہے۔
بابائے قوم کے بعد مجھے تو ایک ’’قائد‘‘ بھی ایسا دکھائی نہیں دیتا جو قوم کو بچوں کی طرح ’’کام، کام اور صرف کام‘‘- ’’خودداری‘‘ اور ’’اصول پسندی‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونٹی، فیتھ، ڈسپلن‘‘ کے سبق سکھاتا نظر آتا ہو، خوشامد کرنے پر ڈانٹ دیتا ہو۔
لیٹ ہونے پر ملنے سے انکار کر دے۔حماقتوں کی انتہا تو یہ کہ ’’قائدعوام‘‘ ذوالفقار علی بھٹو کو نام نہاد ’’دانش ور‘‘ اور ’’انقلابی‘‘ بھی اس ’’کارنامے‘‘ پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں کہ اس نے لوگوں کو ’’زبان‘‘ دی اور ’’حقوق‘‘ کا شعور دیا حالانکہ یہ دونوں انتہائی خطرناک اور ادھورے سچ تھے کیونکہ ’’لمبی زبان‘‘ نہیں، غوروفکر کرنے اور اچھے برے میں تمیز کرنے والا ’’ذہن‘‘ ہی اک حقیقی لیڈر کا اپنے لوگوں کیلئے لازوال تحفہ ہوتا ہے، باقی صرف ڈرامہ ہے۔
اسی طرح فرائض کے احساس بغیر صرف حقوق کا شعور دینا شر پھیلانے کے مترادف ہے۔بغیر ذہن کے زبان اور فرائض کے بغیر حقوق اک ایسی بلٹ ٹرین کی مانند ہیں جو بغیر بریکوں کے غلط ٹریک پر جا رہی ہو۔
آج تقریباً پون صدی کے ہو لئے ہم آزاد ہوئے اور حکومت سمیت سب کے حلق سوکھ گئے یہ کہتے ہوئے کہ ’’اے غیورو! اے باشعورو! صابن استعمال کیا کرو اور کم از کم 20سیکنڈز کیلئے استعمال کیا کرو‘‘ واہ صدقے جاواں ’’نصف ایمان‘‘المعروف صفائی کے جو صدیوں پہلے سمجھائی سکھائی گئی لیکن 73سالوں میں کسی کو اس کی توفیق نہ ہوئی کہ SUBMENکو اس ’’یاددہانی‘‘ ہی کرا دیتے۔
کتنوں نے بتایا کہ نماز کا ایک اہم ترین سبق تنظیم، ترتیب اور ڈسپلن بھی ہے جسے پوری زندگی پر محیط ہونا چاہئے کہ بقول علامہ مشرقی ’’نماز تو شروع ہی مسجد سے باہر ہوتی ہے‘‘۔وہ وضو ہی کیا جو آنکھوں سے لیکر روحوں تک کو صاف نہ کردے۔
آج تک سڑک عبور کرنا، ٹریفک سگنل کی عزت کرنا نہ آیا، کسی نے معصوم بچوں کو نہ سمجھایا کہ امتحانوں میں ’’چیٹنگ‘‘ خود اپنے ساتھ چیٹنگ کے برابر ہے۔ریاست سگی ماں جیسی ہوتی تو شاید سن لیتے لیکن ظالم سوتیلی ماں جیسی ہو تو اس کی صحیح بات ماننے کو بھی جی نہیں کرتا اور ظالم سوتیلی ماں وہ ہوتی ہے جو پیٹ بھر کے روٹی نہ دے، قدم قدم پر مارے اور بے عزت کرے، سگوں کو ترجیح دے، سیکیورٹی دے، پروٹوکول دے، استحقاق دے، مراعات دے، سہولیات دے اور سوتیلوں کو ٹھڈے مارے تو ایسی سوتیلی کی کون سنے گا؟
یہی وجہ ہے کہ کوئی نہیں سن رہا اور نہ کوئی سمجھنا چاہتا ہے۔ ہر حکومت ’’انسان سازی‘‘ میں بری طرح ناکام رہی کیونکہ انہیں ’’آدمی ‘‘ چاہئے- ’’انسان‘‘ نہیں۔ انہیں روبوٹ پسند ہیں اور ان کے ووٹ پسند ہیں۔
جیتے جاگتے غوروفکر کرنے والے زندہ ذہن اور ضمیر ان کیلئے خطرہ 440وولٹ کا نشان ہیں۔میں شہباز شریف کے عہدِ سیاہ میں بھی مسلسل کڑھتا اور لکھتا رہا کہ ا نسان سازی، نیشن بلڈنگ کی طرف توجہ فرماؤ لیکن وہ آشیانے اور دانش سکول ڈرامے کرتا رہا تو یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں، علم ان کو بھی ہو گا کہ لیڈر شپ ہے ہی آدمی کو انسان بنانا لیکن ’’انسان‘‘ ان کے وارے میں ہی نہیں ورنہ یہ منہ اور مسور کی دال کہ اوسط درجہ کا آدمی تین تین بار وزارتِ عظمیٰ کے بعد بھی کہے ’’اک واری فیر شیر‘‘۔
72سال میں شرح خواندگی، معیاری خواندگی کے ساتھ 100فیصد ہوتی تو میں دیکھتا کون لاک ڈاؤن کی دھجیاں بکھیرتا اور کن کو دن رات صابن کا استعمال سمجھانا سکھانا پڑتا۔
رب خیر کرے یہ اذیت ناک مرحلہ جلد ختم ہو اور حکمرانوں کو ہوش آئے کہ قیادت کا تو مطلب ہی انسان سازی ہے۔ﷲ کا سچا نائب آدمیوں کو انسان بناتا ہے اور یہی میرے آقاؐ کی عظیم ترین سنت ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔