11 اپریل ، 2020
چینی اور آٹا اسکینڈل کے بعد پاور سیکٹر اسکینڈل کی تحقیقاتی رپورٹ میں قومی خزانے کو سالانہ 100 ارب روپے سے زائد نقصان پہنچائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
پاور سیکٹر پر ملکی تاریخ کی پہلی 278 صفحات پر مشتمل رپورٹ 9 رکنی کمیٹی نے تیار کی ہے جس میں پاور پلانٹس کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے غیر منصفانہ قرار دیے گئے ہیں۔
وزیراعظم کو پیش کی گئی انکوائری رپورٹ میں قومی خزانے کے نقصان کی وجہ ٹیرف، فیول کھپت میں خرد برد، ڈالرز میں گارینٹڈ منافع کو قرار دیا گیا ہے۔
کمیٹی نے رپورٹ میں پاور پلانٹس کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ 1994 کے بعد آئی پی پیز کے مالکان نے 350 ارب روپے غیر منصفانہ طور پر وصول کیے۔
انکوائری رپورٹ میں بتایا گیا کہ 15 فیصد منافع حاصل کرنے کے برعکس پاور پلانٹس سالانہ 50 تا 70 فیصد منافع حاصل کرتے رہے۔
رپورٹ کے مطابق ہر پاور پلانٹ کی قیمت میں 2 سے 15 ارب روپے اضافی ظاہرکرکے نیپراسے بھاری ٹیرف لیاگیاجب کہ صرف کول پاورپلانٹس کی لاگت 30 ارب روپے اضافی ظاہرکی گئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ انکوائری کمیٹی نے رپورٹ میں کمیٹی کی آئی پی پیز مالکان کے ساتھ ‘‘ٹیک اور پے’’کی بنیاد پر کپیسیٹی پے منٹ کا فارمولہ ختم کرنے اور 100 ارب روپے ریکوری کرنے کی بھی سفارش کی ہے۔