12 اپریل ، 2020
اب جب ہم سب کی زندگیاں خطرے میں ہیں تو ہمیں کون ہیرو دکھائی دے رہا ہے۔ وہ ڈاکٹر جو دن رات مریضوں کی جان بچانے میں مصروف ہیں یا وہ جن کو ہم نے ووٹ دیے ہیں۔وہ جو دن رات ٹی وی پر اپنا فلسفہ بگھارتے تھے۔ اب بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔
ان دنوں ہمیں تاریخ کی ساری کتابیں بے وقعت لگ رہی ہیں جن میں ہیرو وہ دکھائے جاتے ہیں جنہوں نے دہلی۔ بغداد۔ روم اجاڑ دیے۔ کشتوں کے پشتے لگادیے۔ قصیدے بھی ان کے لکھے گئے۔
گزشتہ صدیوں کی تاریخ تو ایک طرف رکھ دیں۔ پچھلی دو دہائیوں میں دیکھ لیں۔ ہمیں جارج بش، ڈک چینی، کولن پاؤل، ٹونی بلیئر یاد ہیں امریکا برطانیہ یورپ کے صحت عامہ کے وزیروں یا سائنسدانوں میں سے کسی کے نام سے آشنائی نہیں ہے۔ وہ جو 1989 سے ممکنہ وباؤں پر تحقیق کررہے ہیں۔ ویکسین ایجاد کررہے ہیں۔ ان کو میڈیا اہم سمجھتا ہے۔ نہ عوام۔ دنیا انسانوں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نائب انسان ہے۔ اللہ کی سب سے بڑی نعمت زندگی ہے۔ اس زندگی کو تحفظ دینے والے ہمارے لیے کبھی اہم نہیں رہے ہیں۔صحت عامہ اولیں ترجیح نہیں رہی ہے۔
کیا اس عالمگیر سانحے کے بعد اب ہماری سوچ تبدیل ہوگی؟ ہم چنگیزوں، ہلاکوؤں، نادروں، ڈک چینیوں، چک ہیگلوں، رمز فیلڈوں، کولن پاؤلوں کو یاد رکھنے کی بجائے اس دَور کے صحت عامہ کے محافظوں کو یاد کریں گے۔ کیا اب دنیا بھر میں صحت اولیں ترجیح بن سکے گی۔ کیا اب بمبار طیاروں، ایٹمی میزائلوں اور ہلاکت خیز ہتھیاروں کی بجائے پیسہ زندگی بخش انتظامات اور دواؤں پر خرچ کیا جائے گا۔
آج اتوار ہے۔ میں آپ سے پہلے صرف یہ ایک دن اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔نواسوں نواسیوں کے ساتھ گزارنے کی اپیل کرتا رہا ہوں۔ اب تو ہفتے کا ہر دن ہی اتوار ہے۔ آپ سارے دن ہی ان کے ساتھ گزاررہے ہیں جو مقاصد ہم اتوار سے حاصل کرنا چاہتے تھے اب تو ہر روز مل رہے ہیں۔
اللہ نے ہمیں کتنی فرصت بخشی ہے۔ اہل خانہ ایک دوسرے کو سمجھ رہے ہیں۔ مجھے جیل کے دن یاد آتے ہیں۔ جب سورج غروب ہونے کے ساتھ ساتھ ساری بیرکوں اور کوٹھڑیوں کا ٹوٹل(گنتی) ہوتا تھا پھر تالے لگادیے جاتے تھے۔ طلوع آفتاب تک کے لیے۔ اب تو تالا ہر وقت لگا ہوا ہے۔ اب تو ہمارا ٹوٹل 24گھنٹے ہورہا ہے۔
مشترکہ خاندان کی دم توڑتی روایت پھر سے مستحکم ہورہی ہے۔ ہمیں پابند زندگی گزارنے کی عادت ہورہی ہے۔مثبت سوچ کو تقویت مل رہی ہے۔ منفی طرز فکر ساتھ نہیں دے رہا ہے۔ ٹی وی سے چپکنے سے بے زاری ہورہی ہے۔ طبیعت اچھی فلموں اور اچھی کتابوں کی طرف مائل ہورہی ہے۔
مجھے تو یہ نوید مل رہی ہے کہ ایک ذمہ دار قوم بننے کی طرف ہمارا سفر شروع ہوچکا ہے۔ حکومت کی عائد کردہ پابندیوں کو ہم اپنے مفاد میں سمجھ کر اپنا رہے ہیں۔ اپنے گھر والوں کی فکر کررہے ہیں۔ حفظ ماتقدم ہمارا شیوہ بن رہا ہے۔ آپ سب یہ حقیقت تسلیم کریں گے کہ پاکستان اپنے 73برسوں میں ایسے ابتلا سے نہیں گزرا ہے۔ اس قوم نے سفاک آمریتوں کا سامنا کیا۔ بھارت کی جارحیت کا مقابلہ کیا۔ اپنوں کی نا اہلیوں اور نا لائقیوں کا خمیازہ بھگتا۔ لیکن اس طرح پابند دن رات گزارنے کا تجربہ نہیں کیا تھا۔ اب تک ہم میں سے اکثریت بڑی دلجمعی اور استقامت سے ان مشقت بھرے دنوں کو برداشت کررہی ہے۔
ہم جو پہلے صوبوں، لسانی گروپوں، طبقاتی کشمکش، برادریوں، اور فرقوں میں گھرے ہوئے تھے۔ اب روزانہ ہمیں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان، آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کا ذکر ایک ہی سانس میں سننے کو ملتا ہے۔
روزانہ سب کی صورت حال کا علم ہوتا ہے۔ مالی امداد، طبی آلات، کی فراہمی سب کے لیے ہورہی ہے۔ آبادی کے تناسب کا خیال بھی رکھا جارہا ہے۔ مریضوں کی تعداد بھی پیش نظر رہتی ہے۔ خدمت کرنے والے ڈاکٹروں، نرسوں، اسپتال کے عملے، سینٹری ورکرز سب کا احترام دل میں بڑھ رہا ہے۔
کھرے کھوٹے کی پہچان ہورہی ہے۔ صحت عامہ اور تعلیم کے شعبوں میں خامیوں کا احساس ہورہا ہے۔ سماجی فاصلوں اور گھر میں قیام کی وجہ سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ رہا ہے۔اس طرح پاکستانی قوم صدیوں کی پسماندگی سے نکل کر جدید ترین ٹیکنالوجی سے روشناسی کے دائرے میں داخل ہورہی ہے۔ یہ سماجی اور عمرانی طور پر ایک طویل جست ہے۔ اب انسانی زندگی۔ اور بقائے بنی نوع انسان مرکز سخن ہیں۔ انسانی بہبود کے لیے بجٹ میںگنجائش اوّلیت پارہی ہے۔ گھروںمیں بیٹھنے والے۔ اور انتظامی مشینری انتظام جدید کی تربیت پارہے ہیں۔
انسانی نفسیات کے ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ ان چند ہفتوں میں عوام کی اکثریت جن مثبت عادتوں کو اختیار کرے گی وہ ان کے معمولات کا حصّہ بن جائیں گے۔ ایسا نہیں ہوگا کہ لاک ڈاؤن ختم ہوتے ہی ہم پھر سے خود غرض اور لاپروا بن جائیں گے۔ پھر انہی موقع پرست سیاستدانوں کی غلامی اختیار کرلیں گے۔
حکمران پارٹیاں ہوں یا دوسرے سیاستدان جو صرف 2023کے الیکشن یا مڈ ٹرم کا سوچ رہے ہیں۔ وہ مسترد ہوسکتے ہیں۔ باقی وہی رہیں گے جو اگلی نسلوں کی فکر کر رہے ہیں۔ کیونکہ اب اکثریت زیادہ باشعور، زیادہ متحرک، زیادہ بے باک ہوجائے گی، ان کے بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں، انہیں پھر اشرافیہ، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، مافیا اور مذہبی سیاستدانوں کا آلۂ کار نہیں بننے دیں گے۔
قوم کا یہ وقت عبادتوں علم اور سائنس کے جلو میں گزر رہا ہے۔ نماز کی پابندی بھی ہورہی ہے۔ انٹرنیٹ اور کتابوں سے رہنمائی بھی حاصل کی جارہی ہے۔ اب اس جاگی ہوئی اکثریت کی قیادت ان کو ہی نصیب ہوگی جو اپنے مذہب، اپنی ثقافت، اپنی روایات، اپنی تہذیب، جدید علوم اور سائنس کا ادراک رکھتے ہوں گےکسی ایک شخص میں ظاہر ہے یہ ساری صفات یکجا نہیں ہوسکتی ہیں۔اجتماعی قیادت ظہور میں آئے گی۔ سچّے اور کھرے ہی اس جنگ کے فاتح ہوں گے۔ قیادت پاکستان کے روایتی حکمرانی طبقوں سے چھن سکتی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔