14 اپریل ، 2020
پسند اپنی اپنی، خیال اپنا اپنا۔ دوسرے جو مرضی کہیں میرا سپر ہیرو فیصل واوڈا ہے۔ کورونا کے بحرانی دور میں کسی کو حکومت سے، کسی کو سائنس دانوں سے اور کسی کو ڈاکٹروں سے امید وابستہ ہے جبکہ میری امیدوں کا واحد مرکز واوڈا ہے۔ وہی ایسا سپر ہیرو ہے جو اس ملک بلکہ اس دنیا کے لوگوں کو کورونا کے بحران سے نکال سکتا ہے۔
یاد کیجئے وہی تو تھا جس نے چینی سفارتخانے پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کو صرف اپنا پستول دکھا کر ٹھکانے لگا دیا تھا۔ یہ میرا ہیرو ہی تھا کہ وہ جب اپنی موٹر سائیکل پر سڑکوں پر نکلتا تھا تو چور، ڈاکو اور جرائم پیشہ راہِ فرار اختیار کر لیتے تھے۔ سیاسی محاذ پر بھی میرے ہیرو نے ایک ٹاک شو میں ایسا بوٹ دکھایا کہ مخالفین کے دانت کھٹے کر دیے اور ابھی تک نونی اس صدمے سے جانبر نہیں ہو سکے۔
کورونا آیا یا آئی تو سب لوگوں کی طرح مجھے بھی پریشانی لگ گئی، ایک تو عمر خطرناک دوسرا زیادہ کھانا کھانے سے پیدا ہونے والی ہر بیماری اپنی ہم نفس۔ وزیراعظم عمران خان کابینہ کے ہنگامی اجلاس کرتے تو میں وزرا کی تصاویر غور سے دیکھتا۔ ان اجلاسوں میں واوڈا کے نہ ہونے سے میرا حوصلہ ٹوٹ جاتا۔ اس معاملے کو ایک ماہ گزر گیا۔ وزیراعظم، کابینہ بلکہ پورے ملک کو احساس ہی نہیں ہوا کہ کورونا بحران سے نمٹنے میں غلطی کہاں ہو رہی ہے۔
میرے خیال میں کورونا نے پھیلنا ہی نہیں تھا اگر پہلے دن ہی سے واوڈا کو سامنے لے آیا جاتا۔ میں مایوسی میں گھر قید ہو کر بیٹھا تھا کہ آج اچانک اپنے سپر ہیرو واوڈا کی کراچی میں پریس کانفرنس اور سندھ حکومت کے خلاف للکار سنی۔ واوڈا کے منظر نامے میں داخل ہوتے ہی میرے دلدر دور ہو گئے ہیں، اب مجھے نہ تو ماسک کی ضرورت ہے اور نہ ہی احتیاط کی۔
میرا سپر ہیرو بڑے خطرناک عفریت تباہ کر چکا ہے، اس کے سامنے کورونا جیسی حقیر چیز کیا حیثیت رکھتی ہے۔ ایک ماہ بعد آج پہلی رات ہو گی کہ میں سکون سے سو سکوں گا وگرنہ کورونا نے تو ڈرا ہی دیا تھا۔ کل کو جب واوڈا کورونا کو اکھاڑے میں گرا کر اس کے اوپر پائوں رکھ کر فاتحانہ نظروں سے کیمروں کی طرف دیکھے گا تو اس وقت میں یہ نعرہ لگائوں گا واوڈا آیا، کورونا بھگایا۔ واوڈا زندہ باد!
آج کی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کسی کی عظمت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ زیادہ تر لوگ تنگ نظر اور حاسد ہیں اس قسم کے احسان فراموش میرے سپر ہیرو فیصل واوڈا کی عظمت پر شک کرتے ہیں یہ سراسر ان کا حسد اور تنگ نظری ہے ویسے تو جلنے والے کا منہ کالا ہوتا ہے لیکن ہم تحقیقی جائزہ لے لیتے ہیں کہ کیسے اس وقت پورے ملک میں فیصل واوڈا کے جوڑ کا ایک بھی بندہ نہیں۔
خان صاحب کو چھوڑ دیتے ہیں کہ ان جیسا تو حکمران پوری دنیا میں نہیں حسین، اسمارٹ، عقل مند، دیو مالائی اور پھر ایماندار۔ یہ تو عطیہ خداوندی ہے جو ہمیں حاصل ہوا ہے اور ہم اس کی قدر کرنے سے قاصر ہیں۔ خان صاحب تو خیر خان صاحب ہیں ان کا ایک ادنیٰ وزیر فیصل واوڈا ہی سب پر بھاری ہے۔
ملک کو وفاقی کابینہ چلاتی ہے پہلے حُسن کا مقابلہ کر لیں، کیا واوڈا جیسا کوئی ایک بھی وفاقی وزیر حسین ہے؟ کیا کوئی اتنا اسمارٹ ہے؟ کیا کوئی اتنا ویل ڈریسڈ ہے؟ کیا کسی کے پاس اس جیسا کاروں کا فلیٹ اور ہیوی موٹر بائیکس ہیں؟ کیا اس جیسا کوئی اور بہادر ہے جس نے دہشت گردوں کو سامنے کھڑے ہو کر للکارا ہو؟ کیا اس جیسا کوئی ماہر سیاستدان ہے جس نے صرف ایک بوٹ کو دکھا کر اپنے سیاسی مخالفوں کے چھکے چھڑا دیے ہوں؟
پوری وفاقی کابینہ پر نظر دوڑا لیں، واوڈا جیسا کوئی بھی نہیں۔ سینئر وزیر پرویز خٹک اسمارٹ ضرور ہیں مگر کچھ زیادہ ہی اسمارٹ بلکہ کمزور ہیں جبکہ واوڈا بالکل متناسب وزن اور جسم رکھتاہے پھر پرویز خٹک واوڈا جیسا مقام اس لئے بھی نہیں رکھتے کہ واوڈا بوٹ دکھا کر آیا تو وزیراعظم اس سے خوش ہوئے مگر خٹک سے وہ خوش نہیں ہیں۔
اسی طرح آپ تجربہ کا ر وزیر داخلہ اعجاز شاہ ننکانوی سے تقابل کر لیں بظاہر تو وہ فوج، بیورو کریسی اور سیاست تینوں متضاد شعبوں کو بھگتا کر آئے ہیں، طاقتور حلقے ان کی تعریف کرتے ہیں مگر وزیراعظم کے دربار میں بھری محفل میں ان سے اظہارِ خفگی ہو چکا ہے جبکہ واوڈا تو وزیر اعظم کے دلدار ہیں۔
صنعت کار گھرانے سے تعلق رکھنے والے رزاق دائود اقتدار کے آغاز میں تو آنکھ کا تارا تھے، بڑے بڑے منصوبے بڑی بڑی باتیں۔ مگر اب وہ اس مقام سے گر چکے ہیں جبکہ واوڈا پچھلے 18ماہ میں اور اوپر گئے ہیں۔ چوہدری فواد کا واوڈا سے کیا مقابلہ، فواد کا مسئلہ سیاست ہے جبکہ واوڈا کا مسئلہ لوگوں کے دل جیتنا ہے۔ فواد کی کبھی وزیراعظم سے بن جاتی ہے اور کبھی بگڑ بھی جاتی ہے مگر واوڈا کے کیا کہنے، اس کی کبھی بگڑ سکتی ہی نہیں، ایسا اور کون ہے؟
خسرو بختیار اسمارٹ ہے، حسین ہے، ویل ڈریسڈ ہے مگر اس پر شوگر اسکینڈل کا بوجھ ہے، بچ تو جائے گا مگر بعد میں داغ تنگ کرے گا۔ واوڈا ان سب داغوں سے مبّرا ہے، وہ ویسے ہی اتنا امیر ہے کہ وہ ان چکروں اور بکھیڑوں میں پڑتا ہی نہیں۔ کیا اس نے کبھی اپنی وزارت کے بارے میں بیان دیا؟ کیا کبھی کوئی پالیسی دی؟ ہرگز نہیں! وہ ان سب معاملات سے بہت بلند و بالا ہے اس کا باقیوں سے کیا مقابلہ؟ اسد عمر اور شفقت محمود کی آج کل کابینہ میں اہمیت بڑھ چکی ہے مگر کہاں واوڈا اور کہاں یہ نام نہاد پڑھے لکھے۔
اسد عمر کچھ زیادہ ہی فلسفیانہ ہے اور شفقت محمود کچھ زیادہ ہی پڑھا لکھا۔ یہ دونوں بڑا سوچ سمجھ کر چلتے ہیں، باس کے اندھے مقلد نہیں ہیں مگر واوڈا تو باس کا اندھا سپاہی ہے۔ دن ہو یا رات باس بلائے تو وہ بھاگا آئے، کورونا ہو یا مریو مونا وہ ہر ایک سے لڑنے پر تیار ہے اور تو اور وہ مراد علی شاہ کو بھی اکھاڑے میں آنے کا چیلنج دے سکتا ہے۔ واوڈا جیسا کوئی ایک بھی ہے تو سامنے آئے؟
امید ہے میرے تھوڑے لکھے کو بہت جانتے ہوئے آپ سب بھی میری طرح فیصل واوڈا کو سپر ہیرو مان چکے ہوں گے، اب کورونا بحران سے عملی طور پر نمٹنے کے لئے سنجیدہ حکمتِ عملی کی طرف آتے ہیں۔
واوڈا صاحب نے ببانگِ دہل یہ اعلان کیا ہے کہ سندھ حکومت چونکہ کورونا سے نمٹنے میں ناکام ہو چکی ہے اس لئے یہ کام ان کے سپرد کیا جائے۔ میرا مطالبہ یہ ہے کہ واوڈا صاحب کے تجربے، پسِ منظر اور ان کی طاقت کے پیشِ نظر کورونا سے لڑائی کا پروجیکٹ فوری طور پر ان کے حوالے کیا جائے۔ کابینہ اور نوکر شاہی نے ان کے کام میں رکاوٹ نہ ڈالی تو وہ اگلے 24گھنٹوں میں کورونا پر ایسا کاری وار کریں گے کہ کورونا کو اس ملک سے بھاگے بغیر کوئی چارہ نہیں ہو گا۔
ویسے تو بڑے خان صاحب جو بھی کریں وہ ٹھیک ہوتا ہے اگر کسی بےعقل کو اس کی سمجھ نہیں آتی تو اسے اپنی عقل کا ماتم کرنا چاہئے۔ ڈرتے ڈرتے، ہاتھ جوڑتے ہوئے البتہ خان صاحب سے یہ گزارش ہے کہ آپ واوڈا کو کوئی بڑا رول کیوں نہیں دیتے، آپ نے اپنے سب سے طاقتور، سب سے قیمتی اور سب سے موثر ہتھیار کو کیوں چھپا رکھا ہے، آپ نے جب بھی اسے آرڈر کرنا ہے اس نے کشتوں کے پشتے لگا دینے ہیں۔
خان صاحب سپر ہیرو واوڈا پر ہاتھ تو رکھ کر دیکھیں وہ الٰہ دین کے جن کی طرح منٹوں، سیکنڈوں میں مسئلے حل کر دے گا۔ میں تو پُر سکون ہو گیا ہوں اب کورونا کی ایسی تیسی۔ واوڈا جانے اور کورونا جانے۔ میں تو لمبی تان کے سوئوں گا جب اٹھوں گا تو کورونا کا قلع قمع ہو چکا ہو گا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔