Time 23 اپریل ، 2020
دنیا

کورونا وائرس کی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش کا عمل شروع

ایلیسا گراناٹو پہلی یورپی رضاکار ہیں جنہیں کورونا ویکسین لگائی گئی اور وہ خود بھی سائنسدان ہیں— فوٹو: بشکریہ بی بی سی

برطانیہ میں کورونا وائرس کی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش کا عمل شروع کردیا گیا۔

یہ یورپ میں کورونا ویکسین کی انسانوں پر پہلی آزمائش ہے البتہ امریکا اس سے قبل مارچ کے مہینے میں کورونا ویکسین کی انسانوں پر آزمائش شروع کرچکا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی جانب سے تیار کی گئی ویکسین دو رضاکاروں کو بذریعہ انجیکشن دے دی گئی۔

اس آزمائشی پروگرام میں شمولیت کے لیے آکسفورڈ نے 18 سے 55 سال تک کے وائرس سے متاثرہ افراد سے درخواستیں طلب کی تھیں جس کے بعد 800 رضاکاروں کو منتخب کیا گیا ہے جن میں سے ایک خاتون اور ایک مرد کو آج ویکسین دی گئی ہے۔

اس پروگرام کے تحت نصف رضاکاروں کو کورونا وائرس کی ویکسین دی جائے گی جبکہ نصف کو کورونا کے بجائے گردن توڑ بخار (meningitis) کی ویکسین دی جائے گی تاہم رضاکاروں کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ انہیں کون سی ویکسین دی گئی ہے البتہ ڈاکٹرز کے پاس اس کا ریکارڈ ہوگا۔

ایلیسا گراناٹو پہلی یورپی رضاکار ہیں جنہیں کورونا ویکسین لگائی گئی اور وہ خود بھی سائنسدان ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ خود سائنسدان ہیں لہٰذا ان کی خواہش تھی کہ وہ اس سائنسی عمل کا حصہ بنیں۔

یہ ویکسین 3 ماہ کے قلیل عرصے میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی پروفیسر سارہ گلبرٹ کی سربراہی میں کام کرنے والی ٹیم نے تیار کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ذاتی طور پر انہیں اس ویکسین سے کافی امید ہے۔

ویکسین کیسے تیار کی گئی؟

فوٹو: بشکریہ بی بی سی

اس ویکسین کی تیاری میں بَن مانسوں میں عام سردی کھانسی کا باعث بننے والے کمزور وائرس (ایڈینو وائرس، دوہرے میعار والے ڈی این اے پر مشتمل وائرسز کے گروہوں میں سے ایک گروہ جو ممالیہ جانوروں میں سانس لینے میں دشواری زکام وغیرہ جیسی بیماریوں کا سبب بنتا ہے) کو استعمال کیا گیا تاہم اس میں جینیاتی تبدیلی کی گئی تاکہ یہ انسانی جسم میں داخل ہوکر نشونما پاسکے۔

آکسفورڈ کی ٹیم اس سے قبل کورونا وائرس سے ملتے جلتے وائرسز جیسے مڈل ایسٹ ریسپرائٹری سنڈروم (مرس) کی ویکسین بھی اسی طریقہ کار کے تحت بناچکے ہیں اور کلینکل ٹرائلز میں اس کے کافی حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔

کیسے معلوم ہوگا کہ ویکسین کام کررہی ہے؟

ویکسین کام کررہی ہے یا نہیں یہ جاننے کا واحد راستہ برطانیہ میں کورونا وائرس کی موجودہ لہر کے برقرار رہنے میں ہے کیوں کہ سائنسدان آنے والے مہینوں میں وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد اور ویکسین سے صحتیاب ہونے والے افراد کے تناسب کا جائزہ لیں گےاور اگر اچانک سے برطانیہ میں وائرس کے کیسز کم ہوگئے تو پھر یہ جاننا مشکل ہوجائے گا کہ آیا ویکسین مؤثر ہے یا نہیں۔

کیسز کم ہونے کی وجہ سے سائنسدانوں کے پاس تقابلی جائزے کیلئے ناکافی ڈیٹا ہوگا۔

آکسفورڈ ویکسین گروپ کے ڈائریکٹر، پروفیسر اینڈریو پولارڈ کا کہنا ہے کہ ہم اس وباء کی موجودہ لہر کے آخری سِرے کا تعین کررہے ہیں اگر ہم اس میں ناکام رہے تو ہم آنے والے مہینوں میں یہ نہیں بتاسکیں گے کہ ویکیسن کارآمد ہے یانہیں البتہ ہم  پُرامید ہیں کہ مستقبل میں کورونا کے مزید کیسز سامنے آئیں گے کیوں کہ وائرس ابھی تک پوری طرح ختم نہیں ہوا ہے۔

ماہرین اس ٹرائل کیلئے زیادہ تر ہیلتھ ورکرز کو ترجیح دہے رہے ہیں کیوں کہ دیگر لوگوں کے مقابلے میں طبی عملے کے کورونا سے متاثر ہونے کے امکانات کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔

اس سلسلے میں 5 ہزار افراد پر مشتمل علیحدہ ٹرائل کا جلد بھی آغاز ہوگا جس میں عمر کی کوئی قید نہیں ہوگی۔

فوٹو: بشکریہ بی بی سی

ماہرین کا خیال ہے کہ بوڑھے افراد کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے لہٰذا ہوسکتا ہے کہ انہیں ویکسین کی دگنی مقدار درکار ہو۔

آکسفورڈ کے ماہرین اس ویکسین کی آزمائش افریقی ملک کینیا میں بھی شروع کرنے پر غور کررہے ہیں کیوں کہ وہاں اب کورونا تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

رضاکاروں کو کورونا سے متاثر کرکے ویکسین کی جانچ کیوں نہیں کی جارہی؟

یہ سوال بھی سامنے آیا ہے کہ اگر متاثرہ افراد کی تعداد کا مسئلہ ہے تو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جان بوجھ کر کورونا سے متاثر کردیا جائے اور پھر انہیں ویکسین دی جائے۔

تاہم اینڈریو پولارڈ کا کہنا ہے کہ چونکہ کورونا وائرس کا اب تک تصدیق شدہ کوئی علاج موجود نہیں ہے لہٰذا ایسا کرنا اخلاقی طور پر درست نہیں تاہم مستقبل میں اگر اس مرض کا کوئی علاج نکل آتا ہے اور ہم مریض کی زندگی کی ضمانت دے سکتے ہوں گے تو پھر ویکسین کی اثر انگیزی جاننے کیلئے ہم رضاکاروں کو کورونا وائرس میں مبتلا کرکے جانچ کرسکتے ہیں۔

کیا یہ محفوظ ہے؟

ٹرائل میں شامل ہونے والے مریضوں کو بتایا گیا ہے کہ ویکسین دینے کے بعد انہیں ابتدائی چند روز میں بازوؤں میں سوجن، سر درد اور بخار ہوسکتا ہے تاہم انہیں مسلسل نگرانی میں رکھا جائے گا۔

آکسفورڈ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے ڈیٹا کے مطابق اس ویکسین کے بعد مریض میں مرض کے شدت اختیار کرجانے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

خیال رہے کہ دنیابھرمیں کورونامریضوں کی تعداد 26لاکھ 97ہزار316 ہوگئی ہے جبکہ دنیا بھر میں کورونا سےہلاکتوں کی تعداد 1لاکھ88ہزار857ہوگئی ہے۔

دنیا بھر میں کورونا کے 7لاکھ 39ہزار945مریض صحت یاب بھی ہوچکےہیں۔

مزید خبریں :