30 اپریل ، 2020
وزارتِ اطلاعات میں حالیہ تبدیلی کے بارے میں مَیں قدرے تفصیل سے کچھ لکھنا چاہتا تھا لیکن پرابلم یہ ہے کہ ’’جنگ‘‘ کا ایڈیٹوریل اسٹاف جلدی چھٹی کر جاتا ہے، چنانچہ بارہ بجے تک جو کالم ان تک پہنچ جائے تو وہ اگلے روز شائع ہو سکتا ہے، ورنہ نہیں۔
اس وقت سوا گیارہ ہوئے ہیں چنانچہ لمبی بات کے لئے میرے پاس وقت نہیں ہے۔ محترمہ فردوس عاشق اعوان فارغ ہو گئی ہیں اور ان کی جگہ سینیٹر شبلی فراز کو وفاقی وزیر اطلاعات اور جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو وزیر اعظم کا معاونِ خصوصی برائے اطلاعات مقرر کیا گیا ہے۔
میرے بیشتر دوستوں نے جن کا تعلق اپوزیشن کی مختلف جماعتوں سے ہے، اس تبدیلی کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ میں بھی یہی سمجھتا ہوں مگر میرے ذہن میں اس حوالے سے ایک تجویز بھی ہے۔
شبلی فراز تو مجھے ویسے ہی بہت عزیز ہیں کہ وہ میرے دوست احمد فراز کے صاحبزادے ہیں، اس کے علاوہ پشاور میں ان سے ایک دفعہ ملاقات اور ٹی وی چینلز سے مختلف اوقات میں ان کی گفتگوئیں سن کر مجھے لگا کہ میں ایک مہذب اور پڑھے لکھے انسان کو سن رہا ہوں۔
جہاں تک عاصم سلیم باجوہ کا تعلق ہے، مجھے حیرت ہے کہ ان کے ’’استقبال‘‘ میں کچھ کمی رہ گئی ہے۔ میری ان سے دو تین ملاقاتیں ہوئی ہیں، وہ میرے خیالات و نظریات سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود مجھے اس طرح ملتے رہے جیسے کوئی اچھا انسان کسی اجنبی سے بھی ملے تو اس پر اپنے اعلیٰ اخلاق کا تاثر چھوڑ جاتا ہے۔
جنرل صاحب نے ایک دفعہ کراچی کیلئے پی آئی اے کی ٹکٹ کے حصول میں بھی میری مدد کی تھی جس کے حصول کیلئے میں ہر ممکن کوشش کر چکا تھا۔
اس ابتدائیے کے بعد کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جس کسی نے بھی وزیر اعظم عمران خان کو ان دو حضرات کی تقرری کا مشورہ دیا، وہ ان کا حقیقی دوست ہے۔ ان کی پارٹی کے کچھ وزرا اپوزیشن سے مکالمے کے دوران جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ ممکن ہے پی ٹی آئی کے ’’ہاکس‘‘ (HAWKS) کو پسند آتی ہو مگر اس سے ایک نیوٹرل پاکستانی کے ذہن میں پارٹی کا جو امیج بنتا ہے وہ اتنا خوشگوار نہیں ہوتا جبکہ شبلی فراز اور عاصم سلیم باجوہ اپنے فرائض ایسی زبان استعمال کئے بغیر زیادہ بہتر طریقے سے انجام دیں گے۔
ایک عمومی تاثر یہ تھا کہ خود وزیراعظم اس لب و لہجے کو پسند کرتے ہیں، اگر یہ تاثر ٹھیک بھی تھا تو ان دو حضرات کی تقرری سے یقیناً اس تاثر میں تبدیلی یا کم از کم کمی ضرور آئے گی۔ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو بطور ڈی جی آئی ایس پی آر، الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے صحافیوں سے ڈیل کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔ انہوں نے صحافیوں سے ایک دشمن نہیں، ایک دوست کے طور پر تعلقات استوار کئے اور یوں ان کی کارکردگی ان تمام افراد سے کہیں بہتر رہی جو اس عہدے پر متمکن رہے تھے۔
مجھے کالم نگاری کرتے ہوئے 55سال ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے انتظامی شعبوں میں بھی کام کرنے کا موقع ملا ہے، میں اپنے اس متنوع تجربات کی روشنی میں یہ بات پورے یقین سے کہہ رہا ہوں کہ اصلی صحافیوں سے آپ کو جائز کاموں کیلئے سوائے خوش اخلاقی کے کچھ بھی نہیں کرنا پڑتا۔
آپ دھونس اور دھاندلی سے ان کے نظریات تبدیل نہیں کر سکتے لیکن ان سے دوستی کی صورت میں آپ ان کے لب و لہجہ میں بہت نرمی لا سکتے ہیں اور وہ آپ کے لئے کچھ لچک بھی پیدا کر سکتے ہیں اور یہ اصول دنیا کے ہر ملک کے صحافتی حلقوں پر فٹ بیٹھتا ہے۔
تھائی لینڈ میں دو بڑے اخبارات دی نیشن اور بنکاک پوسٹ تھے جو پاکستان کے بارے میں بہت معاندانہ رویہ رکھتے تھے، میں نے جب وہاں سفارت کا عہدہ سنبھالا تو چند دنوں بعد میں نے دونوں اخباروں کے ایڈیٹروں سے باری باری ملاقاتیں کیں اور مختلف اوقات میں ان کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کیا۔
اس سے ان کی بنیادی پالیسی تو نہیں بدلی، لیکن اتنی نرمی ضرور آ گئی کہ وہ ہمارے نقطہ نظر کو بہت نمایاں طریقے سے شائع کرنے لگے۔ انہوں نے ہماری طرف سے کشمیر ایشو پر ارسال کردہ مضامین بھی شائع کئے۔ یہ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ ہمارا شعبہ اطلاعات ہر اس شخص کو بلیک لسٹ کرتا رہا ہے جو ان کے تابع فرمان اس طرح نہیں تھا جیسے گھریلو ملازمین ہوتے ہیں۔
چنانچہ یہ رویہ لہجوں میں نرمی کے بجائے مزید سختی لانے کا باعث بنتا رہا ہے۔ پی آئی ڈی والے اور پبلک ریلیشن کے صوبائی محکمے بھی یہی رویہ اختیار کرتے اور انہیں کسی محفل میں مدعو نہ کرتے۔ مجھے یاد ہے میں جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں کافی الٹے سیدھے کالم لکھتا تھا مگر جب کبھی دوسرے صحافیوں کے ساتھ میری ان سے ملاقات ہوتی تو اگلے روز میرے کالم کی ’’ٹون‘‘ بدلی ہوتی تھی۔ ایک چیز آنکھوں کا لحاظ بھی تو ہوتی ہے نا۔
چونکہ بارہ بجنے کو ہیں چنانچہ میں یہ کالم ادھورا چھوڑتے ہوئے اپنے نئے مہذب دوستوں کو خوش آمدید کہتا ہوں مگر مجھے ڈر ہے کہ جس طرح تمام حلقوں کی طرف سے ان کی تقرری کو خوش آئند قرار دیا گیا ہے کہیں ان کے خلاف ابھی سے سازشیں شروع نہ ہو جائیں۔
ان دوستوں سے چلتے چلتے ایک گزارش یہ بھی کرنا ہے کہ جہاں ہر طبقے میں ضمیر کے پاسدار اور ضمیر فروش دونوں موجود ہوتے ہیں اسی طرح یہ دونوں طبقے اخباروں اور ٹی وی چینلز میں بھی موجود ہیں۔
اگر کوئی اس حکومت کے کسی اقدام کو ملک و قوم کے لئے کچھ زیادہ بہتر نہیں سمجھتا، براہ کرم اس گروہ کو سمجھا دیں کہ اس طرح کے سب لوگوں کو ’’پٹواریوں‘‘ میں شامل نہ کریں اور ’’اینٹی سوشل میڈیا‘‘ پر انہیں ماں بہن کی گالیاں نہ دیا کریں۔ یہ گالیاں حکومت کی طرف گولیوں کی صورت میں واپس آتی ہیں۔
اب یہ ذمہ داری شبلی فراز اور عاصم سلیم باجوہ کی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو حکومت کے دوستوں میں شامل کرتے ہیں یا انہیں حکومت کے دشمنوں میں شمار کرتے ہیں۔ اب خدا کے لئے تنگ دلی کی آگ پر پانی ڈالیں اور پاکستان کے اجڑے ہوئے گلشن میں رواداری کے پھولوں کی آبیاری کریں۔ آخر میں افراتفری میں لکھے ہوئے اس کالم میں زبان و بیان کی غلطیوں پر پیشگی معذرت!
پس نوشت: ایک گزارش یہ ہے کہ اختلافِ رائے رکھنے والوں کو غدار کہنے کی روش کی حوصلہ شکنی کریں اور دوسرے یہ کہ جو حکومت کے ناقد ہیں، ان کا مقابلہ سیاسی میدان میں کریں۔
ہماری بدقسمتی کہ ہر دور میں ان پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے، کاش یہ سلسلہ بند کرنے کا سہرا اپنے مشوروں سے شبلی فراز اور عاصم سلیم باجوہ موجودہ حکومت کے سر باندھیں۔ آخری بات ’’لفافہ صحافیوں‘‘ کو اب ’’لفافہ صحافی‘‘ نہ کہیں، ان کی مارکیٹ ڈائون ہوتی ہے کیونکہ لفافے میں چند ہزار روپے آ سکتے ہیں، کروڑوں نہیں۔
اب انہیں پرانے طریقوں سے مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ اس کیلئے کوئی نیا طریقہ ایجاد کرنا پڑیگا۔ ہمارے سائنسدان فواد چوہدری صاحب سے اس حوالے سے مشورہ کیا جا سکتا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔