تحریک انصاف کا چہرہ کون؟

فوٹو فائل—

اگلے دن وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے اپنی پارٹی کے چوبیسویں یومِ تاسیس کے موقع پہ سوشل میڈیا پہ بیان جاری کرتے ہوئے پارٹی کے قیام کے مقصد پہ روشنی ڈالی، انہوں نے اپنے بیان میں اس مقصد کے حصول کے لیے تحریک انصاف کی جدوجہد کو کسی بھی سیاسی جماعت کے مقابلے میں طویل، کٹھن اور صبر آزما قرار دیا۔ 

بلاشبہ عمران خان کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے لیے دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ انتظار کرنا پڑا۔ یہ امر بھی ان کی مقبولیت پہ مہر تصدیق ثبت کرتا ہے کہ گزشتہ اٹھارہ ماہ کے دورِ اقتدار میں اپنے ہی زریں اقوال سے حکمت عملی کے نام پہ پیچھے ہٹ جانے اور عوام کی مشکلات میں گونا گوں اضافے کے باوجود ان کے چاہنے والے آج بھی ان پہ تنقید برداشت نہیں کرتے اور ڈٹ کر ان کے ہر اقدام کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں لیکن کیا چوبیسویں یومِ تاسیس کے موقع پہ ایک نظر پاکستان تحریک انصاف پہ ڈالنے کے بعد کپتان یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ منزل انہی کو ملی ہے جو شریکِ سفر تھے؟

 جن سنگِ میل کی نشاندہی اُنہوں نے اپنے بیان میں کی اس کے مطابق قانون کی وہ بالا دستی قائم ہو چکی جس کی نظر میں سب برابر اور قانون کے تابع ہو گئے ہیں؟ ریاستی اور قومی وسائل کو اشرافیہ کے مضبوط شکنجے سے چھڑا پائے ہیں؟ یقیناً اس کا جواب حوصلہ افزا نہیں ہے لیکن ہم یہ پوچھنے میں ضرور حق بجانب ہیں کہ بطور کپتان جس سنگِ میل کو عبور کرنے کا عزم وہ آج بھی دہرا رہے ہیں کیا اس عزم میں ان کا ساتھ دینے والی ٹیم ان کی چوبیس سالہ ریاضت کا ثمر ہے؟ 

بطور کپتان انہوں نے گزشتہ اٹھارہ ماہ کے دوران تیسری چوتھی بار اپنی ٹیم میں تبدیلی کی ہے لیکن اس ٹیم میں شامل کیے گئے کھلاڑیوں کی اکثریت مستعار لی گئی ہے اور بطور اسپورٹس مین وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ باہر سے کھلاڑی کھلانے پہ ٹیم ڈس کوالیفائی بھی ہو جاتی ہے۔ 

قارئین کی یادداشت کے لیے ذکر ہے کہ بائیس سالہ طویل جدوجہد کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے جب دو سال قبل اقتدار سنبھالا تو بطور وزیر اعظم عمران خان نے جس21رکنی وفاقی کابینہ کا اعلان کیا تھا اس میں 16ارکان وہ تھے جو سابق صدر پرویز مشرف یا پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتوں کا حصہ رہ چکے تھے۔ اُس وقت 21رکنی کابینہ میں صرف تین رہنما ایسے تھے جو تحریک انصاف کے اپنے کھلاڑی تھے اور اس سے پہلے کسی سیاسی جماعت کی حکومت کا حصہ نہیں رہے تھے۔ اُن میں اسد عمر، ڈاکٹر شیریں مزاری اور عامر کیانی شامل تھے۔ 

وزیراعظم عمران خان کی طرف سے اپنی کابینہ میں گاہے گاہے تبدیلیاں اور اضافہ کیا جاتا رہا جس کے نتیجے میں پرویز مشرف کے قریبی ساتھی برگیڈئیر اعجاز شاہ سمیت مشرف اور پیپلز پارٹی کی کابینہ کا حصہ رہنے والے مزید افراد بھی ان کی ٹیم میں شامل ہو گئے۔ 

حالیہ تبدیلیوں کے تحت معاونِ خصوصی فردوس عاشق کو ہٹا کر مسلح افواج کے سابق ترجمان لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کو اُن کی جگہ شامل کیا گیا ہے جبکہ سینیٹر شبلی فراز کو بھی کابینہ میں بطور وفاقی وزیر اطلاعت شامل کر لیا گیا ہے۔ پارٹی کی اس نئی ترجمانی پہ شیخ رشید کا تبصرہ ہی کافی ہے، ان تبدیلیوں کے بعد وزیراعظم عمران خان کی ٹیم میں شامل ارکان کی تعداد 50تک پہنچ چکی ہے۔ 

اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت پہ آئین کے آرٹیکل 92کے تحت قدغن عائد کی گئی ہے کہ وفاقی کابینہ کے ارکان کی تعداد پارلیمنٹ کے ارکان کی مجموعی تعداد کے 11فیصد سے زیادہ نہیں ہوگی، یوں وفاقی کابینہ میں زیادہ سے زیادہ 49ارکان شامل کیے جا سکتے ہیں، آئین کے تحت مشیر اور معاوننینِ خصوصی وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں ہوتے اور وہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں شریک بھی نہیں ہو سکتے لیکن وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں ہونے والے ہفتہ وار کابینہ کے اجلاس میں مشیر اور معاونین خصوصی رولز میں تبدیلی کے جواز کے تحت مسلسل شریک ہو رہے ہیں۔

 اس وقت پانچ مشیروں کو وفاقی وزیر جبکہ چودہ معاونینِ خصوصی کو وزیر مملکت کا درجہ دیا گیا ہے اور وہ اِنہی کے مساوی مراعات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، یوں وزیراعظم عمران خان جو مختصر کابینہ بنانے کا بھی دعویٰ کیا کرتے تھے ان کی اس وسیع کابینہ پہ قومی خزانے سے ماہانہ خطیر رقم خرچ کی جا رہی ہے۔ اس وقت کپتان کی موجودہ 50رکنی ٹیم میں مجموعی طور پہ31کھلاڑی ایسے ہیں جنہیں پاکستان تحریک انصاف کا چہرہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

 پاکستان تحریک انصاف کے قیام کے 24سال مکمل ہونے پہ جہاں عمران خان ایک طویل، کٹھن اور صبر آزما جدوجہد کا ذکر کرتے ہیں وہیں انہیں یہ بھی ضرور سوچنا چاہیے کہ دو دہائیوں کی اس ریاضت کے باوجود وہ محض دو درجن کھلاڑی بھی ایسے کیوں تیار نہ کر پائے جنہیں وہ فخر سے تحریک انصاف کا چہرہ قرار دے سکتے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔