وفاق اور صوبائی حکومتیں کب ایک ہوں گی؟

فوٹو فائل—

پوری دنیا میں کورونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے خلاف اب عوام معاشی بدحالی اور آئسولیشن سے تنگ آکر اب سڑکو ں پر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے صرف امریکا میں 11بڑے صوبوں میں بشمول دارالحکومت واشنگٹن میں بڑی تعداد میں جس میں ہر طبقہ کے افراد بشمول نوجوان اور خواتین ،شامل تھے۔

ٹرمپ حکومت کے خلاف مظاہرہ اور فوری طور پر لاک ڈاؤن ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکہ جیسی سپر طاقت کی معیشت کو دھچکا لگتے دیکھا گیا۔ یہی صورتحال فرانس، اٹلی، اسپین، جرمنی میں شروع ہو چکی ہے۔ گزشتہ ہفتے جب بھارت کی مودی سرکار نے لاک ڈاؤن 15دن کے لیے بڑھایا تو دلی، بمبئی، بنگلور، صوبوں میں لاکھوں بیروزگار افراد سڑکوں پر نکل آئے اور زبردست مظاہرہ دیکھنے میں آیا، جبکہ بھارت میں ہر بڑے شہر میں لاکھوں افراد سڑکوں پر سوتے ہیں۔

(اسی افراتفری میں بھارتی حکومت نے اقلیتوں کے خلاف ایک متنازع قانون بھی پاس کروایا، خصوصاً مسلمان اس سے متاثر ہوں گے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ OICاس کے خلاف کوئی آوازنہیں اٹھاتی ہے، چند ممالک کو چھوڑ کر تمام مسلم ممالک بھی خاموش ہیں)۔

کوریا اور دبئی نے لاک ڈاؤن ختم کر کے پہل تو کر دی ہے، البتہ اسی امریکہ میں جہاںسب سے زیادہ کورونا نے تباہی مچائی اور نیویارک میں 16سترہ سو افراد کی اموات روزانہ ہو رہی تھیں، لاک ڈاؤن آہستہ آہستہ ختم کرنے کا عندیہ دیا جا چکا ہے۔ اسمارٹ لاک ڈاؤن یورپی ممالک میں بھی شروع ہو چکا ہے، البتہ ماسک اور فاصلہ لازمی ہوگا۔ تمام حکومتیں اپنے طور پر اپنے عوام کو معاشی سہولتیں پہنچا رہی ہیں ۔

اُمید ہے کہ مئی کے دوسرے تیسرے ہفتے تک اس میں بہتری آ جائے گی۔ مگر ہمارے ملک میں چار ہفتے سخت لاک ڈاؤن کے گزرنے کے باوجود بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی ، جس کی سب سے بڑی وجہ وفاق اور صوبوں کی حکومتوں کا آپس کا اختلاف ہے جوعوام کو زبردست معاشی بدحالی اور ملکی معیشت کو ختم کر رہا ہے۔

اس کا سب سے بڑا ردِعمل صوبہ سندھ میں دیکھا جا سکتا ہے اور یہ ٹکراؤ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے، اگر اسی طرح حکومتوں میں رسہ کشی جاری رہی تو سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شہر کراچی اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے ٹیکس دینے کے قابل ہی نہیں رہے گا ۔ یہاں کے عوام اب سڑکوں پر بھی آنے کے لئے تیار ہیں۔ سندھ حکومت مسلسل ایسی کارروائیاں کر رہی ہے۔

ایک طرف مارکیٹیں اور فیکٹریاں بند ہیں، بازار بند ہیں، مساجد اور عبادت گاہیں، شادی ہال، ریسٹورنٹس بند ہیں۔ پھر ٹیکس کہاں سے ملے گا۔ یوٹیلٹی بل کون ادا کرے گا۔ تمام تعلیمی ادارے بند ہیں، اساتذہ اور اسکولوں کے کرائے کون ادا کرے گا۔ سب زبانی جمع خرچ چل رہا ہے، عملی طور پر نہ سندھ حکومت کو کراچی والوں کا دکھ نظر آتا ہے نہ وفاقی حکومت کو احساس ہےنہ اس3 کروڑ آبادی والے شہر سے کوئی ہمدردی ہے۔

مارکیٹوں کی یونین کے عہدیداران سے وعدے، علماء سے معاہدے سب ہوا میں تحلیل ہو چکے ہیں۔ صنعتی ادارے، مارکٹیں کھولنے کے لئے چندوں اورمبینہ بھتوں کی بھی نشاندہی کی جا چکی ہے۔ پولیس لاک ڈاؤن کی آڑ میں دکانوں اور سواریوں سے رشوت وصول کر رہی ہے اور نہ دینے کی صورت میں مار پیٹ اور بےعزتی سے باز نہیں آتی۔ کب تک یہ ہولناک صورت حال رہے گی اس کا جواب نہ وزیراعظم عمران خان کے پاس ہے اور نہ ہی صوبائی حکومتوں کے پاس ہے۔

جب بڑے بڑے ممالک جن میں شرح اموات پاکستان سے بہت زیادہ تھی اور لاکھوں متاثرین بھی تھے وہاں لاک ڈاؤن میں آہستہ آہستہ نرمی کی جا رہی ہے۔ الحمدللہ ہمارے ملک میں تو کورونا کے اثرات ان سے بہت کم ہیں تو پھر اتنا سخت لاک ڈاؤن آپس کی چپقلش اور مفادات کی جنگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سننے میں یہ بھی آرہا ہے کہ سندھ حکومت اس کی آڑ میں وفاق سے شایدکچھ سمجھوتہ کرنا چاہتی ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ صاحب میں آپ کی ہی تقریر کے الفاظ دہراتا ہوں کہ خدارا یہ سیاست کرنے کا وقت نہیں ہے، عوام کے دکھ سمیٹنے کا وقت آ گیا ہے۔ اس لاک ڈاؤن کو رات 10بجے سے صبح 6بجے تک کرفیو میں بدل دیں کورونا سے بھی احتیاط ہو جائے گی اور کاروبار زندگی بھی رواں ہوجائےگا۔ جب فیکٹریاں اور مارکیٹیں کھلیں گی تو معیشت کا پہیہ چل جائے گا۔ عوام بھوک اور بیروزگاری سے نجات حاصل کر لیں گے۔

عید بھی قریب آ رہی ہے، لاکھوں کاریگر اور روزمرہ کے مزدور بددعائیں دینے کے بجائے دعا دیں گے اور عید کی خوشیوں میں شامل ہو سکیں گے۔ اگر ہوش سے کام نہ لیا تو پھر اِن بھوکے اور لاچار عوام کے ردِعمل سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔

میری عدالتِ عظمیٰ سے درخواست ہے کہ اس سنجیدہ مسئلہ کا فوری حل نکالنے میں اپنی حکمتِ عملی اور مشوروں کے لئے وفاق اور صوبائی حکومتوں کو بلا کر کوئی مثبت فیصلہ کروائیں اور عوام کو اس ناگہانی مصیبت سے نجات دلوائیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔