05 مئی ، 2020
وزیراعظم عمران خان جو غریبوں، ناداروں اور مزدوروں کے درد میں گھلتے رہتے ہیں انہوں نے چند روز قبل فرمایا، لاک ڈاؤن اشرافیہ نے کروایا، اگرچہ سب اخبارات نے وزیراعظم سے منسوب یہ بیان شائع کیا مگر مجھے تسلی نہ ہوئی تو ان کے خطاب کی فوٹیج ڈھونڈنے کی کوشش کی۔
تھوڑی جستجو کے بعد ریکارڈنگ مل گئی تو معلوم ہوا کہ انہوں نے یہ بات اسلام آباد میں کامسٹیک ہیڈکوارٹر میں ہو رہی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی، وزیراعظم نے کہا ’’جلدی سے لاک ڈاؤن اناؤنس کردیا۔ سوچا ہی نہیں کہ وہ بیچارہ دیہاڑی دار، وہ غریب آدمی، وہ رکشے والا، وہ جو بیچارہ سارا دن محنت کرکے آکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے، اس کا کیا بنے گا۔ ایلیٹ نے فیصلہ کر لیا سارے ملک کے لئے‘‘۔
میرا خیال تھا کہ تازہ دم حکومتی ترجمان شبلی فراز اس بیان پر روشنی ڈالیں گے یا پھر وزیراعظم کے مشیر اطلاعات و نشریات جنرل (ر)عاصم سلیم باجوہ اس بیان کی تفسیر بیان کریں گے مگر حیرت انگیز طور پر دونوں شخصیات نے اس بیان کی تشریح کرنے کی ہمت نہیں کی۔ پاکستان کی سیاسی لغت میں گزشتہ چند برس کے دوران بیشمار الفاظ کا اضافہ ہوا۔
کب سے ’’وسیع تر قومی مفاد، ہارس ٹریڈنگ، فلور کراسنگ، اسٹیبلشمنٹ، پورس کے ہاتھی، علی بابا چالیس چور، ڈکٹیشن، بی بی اور بابو، نورا کشتی، خفیہ ہاتھ، فرشتے، نادیدہ طاقتیں‘‘ جیسے فرسودہ بلکہ بیہودہ الفاظ سن سن کر کان پک گئے تھے۔ وہ تو بھلا ہو کپتان کا جو ’’تبدیلی‘‘ اور ’’نئے پاکستان‘‘ کے الفاظ لیکر آئے۔
انکے سیاسی حریف نواز شریف کہاں پیچھے رہنے والے تھے انہوں نے پاناما کیس میں نااہلی کے بعد ’’خلائی مخلوق‘‘ اور ’’محکمہ زراعت‘‘ جیسی اصطلاحات متعارف کروائیں۔ ’’قومی سلامتی‘‘ اور ’’وقار‘‘ جیسے الفاظ کا اضافہ تو پہلے ہی ہو چکا تھا مگر اس دوران کپتان کی وجہ سے ’’یوٹرن‘‘ کے لفظ کو بھی خاصی اہمیت دی گئی مگر کئی ماہ سے سیاست کے بازار میں کسادبازاری اور مندے کا رجحان دکھائی دے رہا تھا اور کوئی نئی ٹرم سامنے نہیں آرہی تھی۔
کپتان کو داد دیں کہ اس نے ’’اشرافیہ‘‘ جیسی ایک پرانی اصطلاح کو ایک مختلف پسِ منظر اور نئے انداز میں پیش کرکے سیاسی اسٹاک مارکیٹ میں تیزی پیدا کردی ہے۔
یہ بات واقعی اچنبھے کا باعث ہے کہ ابھی تک کسی حکومتی ترجمان نے وزیراعظم کے اس فرمانِ عالیشان کے اسرار و رموز بیان کرنے کا تکلف کیوں نہیں کیا؟ انہیں شاید اس حقیقت کا ادراک نہیں کہ لوگوں کے ذہن منفی رجحانات کے حامل ہیں اور وہ تخیلات کے گھوڑے سرپٹ دوڑاتے ہوئے پتا نہیں کہاں پہنچ جاتے ہیں اور پھر پٹواری تو ہر پل موقع کی تاک میں رہتے ہیں۔
انہیں تو موقع چاہئے تنقید کرنے کا۔ میرے خدشات کے عین مطابق سیاسی مخالفین نے اس بیان سے غلط مطلب اخذ کرکے پروپیگنڈا کرنا شروع کردیا ہے۔
اسلیے اب بھی موقع غنیمت جان کر بلاتاخیر اسد عمر کو ’’اشرافیہ‘‘ کا نمائندہ قرار دیدیا جائے تو سیاسی مخالفین کے منہ بند کیے جا سکتے ہیں کیونکہ وزیراعظم کے اظہارِ ناپسندیدگی کے باوجود لاک ڈاؤن کا سوچے سمجھے بغیر فوری طور پر اعلان تو انہوں نے ہی کیا تھا یا پھر یہ ذمہ داری وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ پر ڈال دی جائے کیونکہ پہل کرتے ہوئے سندھ میں لاک ڈاؤن کا اعلان ان کی طرف سے ہی کیا گیا تھا۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ وزیراعظم کے اس بیان کی تعبیر و تفسیر بیان کرنے کی جسارت تو میں بھی نہیں کر سکتا البتہ میں بقائمی ہوش و حواس مکمل وثوق کیساتھ یہ کہنے کو تیار ہوں کہ مستند ہے عالی مرتبت وزیراعظم کا فرمایا ہوا۔ میں انکی اس بات سے مکمل اتفاق ہی نہیں کرتا بلکہ انکی غیر مشروط تائید و حمایت کا اعلان بھی کرنے کو تیار ہوں۔
ممکن ہے وزیراعظم کے قریبی ساتھیوں میں سے کسی کو اس بات پر شک ہو، وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات شبلی فراز اس بات کا دفاع کرتے ہوئے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کریں یا پھر جناب شہباز گل اس بات پر ایمان لاتے ہوئے پس و پیش سے کام لیں مگر میں بلاتامل یہ کہنے کو تیار ہوں کہ سب ’’اشرافیہ‘‘ کا ہی کیا دھرا ہے۔ اشرافیہ نے اپنے طور پر محض لاک ڈاؤن کا ہی فیصلہ نہیں کیا بلکہ اس سے پہلے بھی کئی مواقع پر ہمارے ہر دلعزیز وزیراعظم کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ اشرافیہ کے کئے گئے غلط فیصلوں کا بوجھ بھی جناب وزیراعظم کو اُٹھانا پڑتا ہے۔ اگر ’’اشرافیہ‘‘ نے روڑے نہ اَٹکائے ہوتے تو اب تک تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو چکا ہوتا۔ کیا بتاؤں، کہاں تک سنیں گے، کہاں تک سناؤں۔
’’اشرافیہ‘‘ کے کارناموں کی فہرست بہت طویل ہے۔ بی آر ٹی پشاور کا منصوبہ مکمل نہ ہونے پر حکومت کو کس قدر ہزیمت اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اب بیچارے عام افراد کو کیا معلوم کہ اس منصوبے کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ’’اشرافیہ‘‘ ہے۔ یہ جو معیشت کا ستیاناس ہو گیا، روپے کے مقابلے میں ڈالر مہنگا ہو گیا۔
کاروبار ٹھپ ہو گئے، یہ سب ’’اشرافیہ‘‘ کا کیا دھرا ہے۔ وزیراعظم تو پیٹرول سستا کرنا چاہتے تھے، 24روپے فی لیٹر کی سمری تیار کرنے کو کہا گیا تھا مگر یہ ’’اشرافیہ‘‘ سارے ملک کا فیصلہ خود کرنے پر مصر رہتی ہے۔
مراد سعید کا وعدہ پورا ہو سکتا تھا، ممکن تھا کہ وزیراعظم حلف اُٹھاتے ہی بیرون ملک پڑے 200ارب ڈالر واپس لاکر آئی ایم ایف کے منہ پر دے مارتے، یومیہ 12ارب کرپشن روکنے کیلئے تمام کرپٹ افراد کی فائلیں منگوائی جاتیں۔
منی ٹریل اور ٹرائل کی لمبی کہانی کے جھنجھٹ میں پڑے بغیر ان سب کو لٹکانے کا حکم دیدیا جاتا مگر ’’اشرافیہ‘‘ نے یہ سب نہیں کرنے دیا اور کرپٹ افراد کو بچا لیا۔ وزیراعظم تو کرپٹ وزیروں کو بھی چین کی طرح پھانسی کی سزا دینا چاہتے ہیں مگر ’’اشرافیہ‘‘ کے دباؤ پر انکے قلمدان تبدیل کرنے پر ہی اکتفا کرنا پڑتا ہے۔
وزیراعظم تو سویڈن کے وزیراعظم کی طرح سائیکل پر دفتر جانا چاہتے ہیں مگر یہ نگوڑی ’’اشرافیہ‘‘ کچھ کرنے ہی نہیں دیتی، سیکورٹی اور پروٹو کول کا بہانہ کرکے روک لیتی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔