07 مئی ، 2020
سوشل میڈیا پہ کراچی کے ایک بازار میں رونما ہونے والے ایک واقعہ کی وڈیو وائرل ہے۔ وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چند خواتین کسی مارکیٹ کی دوسری منزل سے پائپوں اور شیڈوں کے سہارے لٹک لٹک کر نیچے اترنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
نیچے کھڑے کچھ مرد نیچے اترنے میں اُن کی اس انداز میںمدد کر رہے ہیں کہ اُن خواتین کو کیچ کیا جائے۔ وہاں مردوں کا ایک ہجوم لگا ہے اور موبائل کیمروں سے وڈیوز بھی بنائی جا رہی ہیں۔
سوشل میڈیا کی معلومات کے مطابق یہ خواتین شاپنگ کے لیے گئی تھیں لیکن پولیس نے بازار، دکانیں بند کروا دیں تو وہ اندر ہی بند ہو گئیں جس کے بعد اُنہیں اس انداز میں پہلی منزل سے چھلانگیں لگا لگا کر باہر نکلنا پڑا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک پرانی وڈیو ہے اور ایک مساج سنٹر کی ہے جسے بند کیے جانے پر اس مساج سنٹر میں کام کرنے والی خواتین کو اس طرح نکالا جا رہا ہے۔
واقعہ کی حقیقت جو بھی ہو، عورتوں کو وہاں سے نکالنے کا یہ طریقہ نہیں۔ وہ جو بھی تھیں اُس احترام کی ضرور مستحق تھیں جس کی ہمارا دین تعلیم دیتا ہے اور جس کی ہمارے معاشرے میں روز بروز کمی ہوتی جا رہی ہے۔
مجھے افسوس اُن مردوں پر ہوا جنہوں نے اس واقعہ کو ایک تماشا بنا لیا، جسے نہ صرف دیکھنے کے لیے وہ وہاں جمع ہوئے بلکہ وڈیو میں اس واقعہ کی رننگ کمنٹری بھی سنائی دی۔ وڈیو بنانے والے نے ان خواتین کی وہاں سے جاتے ہوئے قریب سے وڈیو بنانے کی کوشش بھی کی تاکہ جس قدر ممکن ہو سکے اُنہیںIdentifyکیا جا سکے۔
مجھے یہ مرد تماش بین اور بے حیا لگے، جن کو اتنی شرم محسوس نہ ہوئی اور عورتوں کو مہذب طریقہ سے نیچے اتارنے کے بجائے انہیں تماشا بنا دیا اور یہ تماشا دیکھنے کے لیے وہاں ہجوم جمع ہو گیا۔
ہو سکتا ہے کہ چند ایک واقعی مدد کرنا چاہ رہے ہوں لیکن کیا اُن خواتین کو وہاں سے نیچے اتارنے کے لیے کسی سیڑھی کا یا کوئی دوسرا انتظام نہیں ہو سکتا تھا کہ اُنہیں پائپوں اور شیڈوں کے ساتھ لٹک لٹک کر چھلانگیں نہ لگانا پڑتیں۔ پھر اوپر سے ہجوم، وڈیو اور رننگ کمنٹری۔
وہاں موجود مردوں میں سے اگر یہ کسی کی اپنی ماں، بہن، بیٹیاں ہوتیں تو کیا پھر بھی وہ اسی طرح ہجوم بنا کر جمع ہوتا، وڈیو بناتا اور کمنٹری بھی کرتا؟ اگر خواتین نے کوئی غلط کام کیا تو بھی وہ اس سلوک کی مستحق نہ تھیں۔
یہ ہمارے معاشرے کے اکثر مردوں کا وہ منافقانہ رویہ ہے جو اُن کی بے شرمی اور بے حیائی کو ظاہر کرتا ہے۔بازاروں میں، سڑک پر، پارک میں خواتین ایسے بے حیا مردوں کی نظروں اور حرکتوں سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتیں۔
اپنی کسی مجبوری میں گھر سے نکلنے والی خواتین پر آوازے کسے جاتے ہیں، اگر کوئی بیچاری سڑک پر پیدل چل رہی ہو یا اپنی کسی سواری کا انتظار کر رہی ہو اور چاہے حجاب میں ہی ہو، تو آپ کئی بار دیکھیں گے کہ کچھ گاڑیوں والے گزرتے ہوئے اُن کے پاس اپنی گاڑی آہستہ کریں گے۔
کچھ روک بھی لیں گے اور اُنہیں ساتھ بیٹھنے کی دعوت دیں گے۔ مردوں کی اس بے حیائی اور بے شرمی کو آپ تقریباً ہر جگہ اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں دیکھ سکتے ہیں۔
کیا کارپوریٹ دنیا اور مختلف بزنسز سے تعلق رکھنے والے وہ مرد بے شرم نہیں جو خواتین کو اپنے کاروبار بڑھانے، اپنی پروڈکٹس کو بیچنے حتیٰ کہ پبلک ریلیشنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
کیا وہ استاد بے شرم اور بے حیا نہیں جو اپنی خواتین اسٹوڈنٹس کو ہراساں کرتے ہیں اور یہ واقعات ہمارے ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں روز بروز بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
بینکوں، انشورنس کمپنیوں اور کئی دوسرے کاروباری اداروں سے تعلق رکھنے والی خواتین کی یہ بھی شکایت سامنے آئی ہے کہ اُنہیں ایسے کام سونپے جاتے ہیں جس کا مقصد اُنہیں ایک شو پیس کے طور پر استعمال کرنا ہوتا ہے۔
ہماری فلموں، ڈراموں اشتہاروں میں خواتین کو نچوا کر، اُن سے آئٹم سانگ کروا کر، اُن سے فحش ڈانس اور دوسرے سین کرا کے پیسہ کمانے والے مرد کیا خود بے شرم اور بے حیا نہیں؟
میڈیا میں خواتین کے ’’بولڈ سین‘‘ چن چن کر دکھانے والوں میں حیا نام کی کوئی چیز ہے کہ وہ عورتوں کے اس استحصال میں کس ڈھٹائی سے حصہ دار بنے ہوئے ہیں۔ بے شرمی اور بے حیائی کا تعلق صرف عورت کے لباس اور اُس کی فحش انداز میں تشہیر سے نہیں بلکہ اس کا بہت بڑا تعلق مرد کے اپنے بے حیا ہونے سے ہے۔
ہمارے دین میں حیا مرد اور عورت دونوں کے لیے لازم ہے۔ ہم عورت کی حیا پر تو بہت بات کرتے ہیں لیکن مردوں کی حیا پر بات نہیں ہوتی حالانکہ اکثر و بیشتر عورت کی بے حیائی میں دراصل بے حیا مرد کی سوچ اور اُس کے عمل کا بہت بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ اس سوچ کو بدلنے کے لیے ہمیں اپنے معاشرے کی کردار سازی کرنا ہو گی۔
اگر عورت کو پردہ اور حیا کی تعلیم دینی ہے تو مرد کو بھی سکھانا ہوگا کہ اُس کے لیے بھی حیا اُسی طرح لازم ہے جیسے کسی عورت کے لیے۔ عورت کو گھر سے نکلنے سے پہلے اگر یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ باپردہ ہو کر باہر نکلے تو مرد کو گھر سے باہر نکلنے والی خواتین کا احترام کرنا سکھائیں کہ وہ دوسروں کی ماؤں، بہنوں کی اسی طرح عزت کرے جیسے وہ اپنی ماں بہن کے لیے دوسروں سے احترام چاہتا ہے۔ معاملہ کردار سازی کا ہے جس پر ہماری کوئی توجہ نہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔