Time 09 مئی ، 2020
بلاگ

صحافت کیخلاف مقدمہ

فائل فوٹو

’’میرا بس چلے تو ان صحافیوں کو اُلٹا لٹکا دوں اور اخبارات کو دس سال بند رکھوں‘‘۔ یہ الفاظ اس ملک کے سب سے طاقتور آمر جنرل ضیاء الحق نے نامور صحافی رہنما نثار عثمانی مرحوم سے اُس وقت کہے جب انہوں نے اُن دس صحافیوں کی برطرفی پر احتجاج کیا جنہیں 1983میں سندھ میں ایک آپریشن کی مخالفت پر نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔

عثمانی صاحب نڈر آدمی تھے۔ طاقتوروں کے سامنے کلمۂ حق کہنا اُن کی عادتوں میں سے ایک عادت تھی۔ کچھ سال پہلے ہی جنرل ضیاء کی جیل کاٹ کر اور چکی پیس کر آئے تھے۔ ضیاء الحق سے مخاطب ہو کر بولے ’’زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، آپ یہ بھی کرکے دیکھ لیں۔ ہم پھر بھی حق گوئی سے باز نہیں آئیں گے‘‘۔

1977سے 1978تک چار سو کے قریب صحافیوں اور اُن کی حمایت میں مزدوروں، ہاریوں اور سیاسی کارکنوں نے گرفتاریاں بھی دیں۔ قید و بند بھی کاٹی اور کوڑے بھی کھائے۔ اس ملک میں سنسر شپ بھی رہی اور سچ لکھنے پر پابندی بھی مگر آخری فتح سچ کی ہی ہوئی۔

صحافت کے خلاف ہر دور میں مقدمہ بھی چلا چارج شیٹ بھی ہوئی پابندی بھی لگی، سزائیں بھی ہوئیں۔ صحافی معتوب بھی ٹھہرے، حق گوئی کی پاداش میں نوکریوں سے بھی گئے۔ ملک بدری بھی دیکھی اور آج بھی یہ سفر جاری ہے۔

لہٰذایہ پہلی حکومت نہیں جسے میڈیا برا لگ رہا ہے اور نہ ہی یہ وہ پہلی حکومت ہے جو یہ کہہ رہی ہے کہ یہاں پیسہ دے کر پروگرام کرائے جاتے رہے ہیں، پلانٹڈ پروگرامز ہوتے رہے ہیں۔

آج حکومت کو کرنٹ افیئرز کے پروگرام بھی برے لگنے لگے ہیں۔ یہ سمجھتی ہے کہ اب لوگ یہ شوز نہیں دیکھتے۔ یہ بھی تاریخ میں پہلی بار نہیں کہ اپنی صفوں کے کچھ دوست میڈیا کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنے ہوئے ہیں۔

خود ہی چارج شیٹ کرتے ہیں اور سزا سنا دیتے ہیں۔ میڈیا کے کارکنوں کے معاشی مسائل پر نہ اُن کا قلم کبھی اٹھانہ کبھی کسی تحریکِ آزادیٔ صحافت کا حصہ رہے۔

اب اس سے پہلے کہ کچھ تاریخی حقائق آپ کے سامنے رکھوں محترم وزیراعظم عمران خان سے میری دلی اپیل ہے جو میں اس سے پہلے کئی حکمرانوں سے جن میں محترمہ بےنظیر بھٹو شہید اور جناب نواز شریف شامل ہیں کہ جو صحافی کسی کے ’’پےرول‘‘ پر ہیں، لفافہ لے کر پروگرام کرتے ہیں یا خبر دیتے ہیں، کالم لکھتے ہیں یا کسی ایجنسی کے ’’پےرول‘‘ پر ہیں، اُن کی فہرست شائع کریں۔ اُنہیں بےنقاب کریں۔ آپ اس وقت جس مسند پر ہیں وہاں محض الزام لگانے سے بات نہیں بنے گی۔

میں نے یہی بات 1989میں گورنر ہائوس کراچی میں اُس وقت کی وزیراعظم بےنظیر بھٹو سے کہی تھی کہ جو لوگ ’’پےرول‘‘ پر کام کرتے ہیں، اُن کے نام ثبوت کے ساتھ پیش کریں تاکہ ہم ایسے لوگوں کو اپنی صفوں سے نکالیں۔

اس ملک میں کسی ’’میڈیا ہائوس‘‘ کا کوئی سیکرٹ فنڈ نہیں ہے۔ ہاں، مگر 1950ء سے لے کر 2013تک وزارت اطلاعات کا ’’سیکرٹ فنڈ‘‘ رہا ہے اور من پسند صحافیوں سے حکومتِ وقت کے حق میں لکھنے پر نوازا بھی گیا ہے۔ مگر یہ صحافی ہی تھے جن کی درخواست پر 2012میں سپریم کورٹ نے اس سیکرٹ فنڈ کو ختم کروایا۔ فہرستیں بھی شائع ہوئیں۔

کچھ نے تردید کی کچھ نے وضاحت کی۔ یہ بھی کریڈٹ صحافیوں کو جاتا ہے کہ اس پٹیشن کے نتیجے میں ایک میڈیا کمیشن بنا جس کی 369صفحات پر مشتمل رپورٹ اور تجاویز حکومت کے پاس موجود ہیں۔

میں نے ذاتی طور پر کچھ عرصے پہلےسابق معاونِ خصوصی محترمہ فردوس عاشق اعوان صاحبہ سے درخواست کی تھی کہ آزادی صحافت کو یقینی بنائیں، ہمنوا نہ بنائیں۔ اس رپورٹ پر عمل کروائیں۔ مجھے انتظار رہے گا جیسا کہ ماضی کے حکمرانوں سے اُمید تھی۔

اس ملک میں صحافت بیشتر ادوار میں پابندِ سلاسل ہی رہی ہے۔ صحافیوں پر قومی مفاد کے خلاف کام کرنے پر مقدمات بھی بنے۔ جب بھی کسی نے حکومت کے خلاف کچھ لکھا تو اُسے ریاست کے خلاف لکھنے سے تعبیر کیا گیا۔ یہ سلسلہ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔

بدقسمتی سے انگریزوں کے بنائے ہوئے وہ کالے قوانین جن کا مقصد میڈیا پر قدغن لگانا تھا نہ صرف برقرار رکھے گئے بلکہ ان 72سالوں میں مزید ایسے قوانین لائے گئے جس سے صحافت کو کنٹرول کیا جا سکے۔ درجنوں اخبارات و رسائل بند ہوئے۔ کئی صحافی مدیر و مالک جیل بھی گئے۔ جس جس نے مداح سرائی کی وہ صاحبِ عزت کہلایا باقی غدار۔

آج جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن صرف ایک لائن لکھ کر دے دیں اور ’’ہاں‘‘ کرلیں تو کیسا مقدمہ اور کیسی جیل، مزے ہی مزے ہو جائیں گے۔ ایسے ہی تو پچھلے پچاس روز سے بند نہیں ہیں۔

جناب والا: ایک آزاد کمیشن بنائیں اور جو جو الزامات میڈیا پر ہیں محترم وزیراعظم یا کسی اور کے اُس کی تحقیقات کریں۔ تمام کا فرانزک آڈٹ بھی کرالیں یہ بھی پتا چلایا جائے کہ کون کون پیسے لے کر پروگرام کرتا ہے اور کون کون پیسے دیتا رہا ہے۔ فرانزک آڈٹ وزارت اطلاعات کا بھی اور اُن سب کا جہاں جہاں ’’سیکرٹ فنڈ‘‘ قائم رہا ہے یا اب بھی ہے۔

اس کی رپورٹ تین ماہ میں مکمل ہو، شائع ہو اور کارروائی ہو۔رہی بات میڈیا پر فحاشی اور عریانیت پھیلانے کی تو اس کی تعریف کر دی جائے۔ قومی مفاد کی تعریف کی طرح مبہم نہ چھوڑا جائے۔ اس کا تعلق صرف عورت سے کیوں جوڑا جاتا ہے۔ جب بھی مثال دی جاتی ہے تو عورت پر ہی الزام لگایا جاتاہے۔

اس وقت سوشل میڈیا پر بلاسنسر صحافت اور صحافیوں کے خلاف مہم جاری و ساری ہے کیونکہ سنسر شپ تو صرف آزاد صحافت پر لگتی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔