بلاگ
Time 29 فروری ، 2020

صحافت پر خوف کے سائے

فوٹو: فائل

حکومت نے کابینہ کی منظوری سے ایک بل اخباری تنظیموں کو بھیجا ہے تاکہ اُن کی رائے کو پیشِ نظر رکھا جائے اور اس بل میں شامل کیا جا سکے۔ 

حکومتِ پاکستان کی کابینہ میں موجود ایک سے بڑھ کر ایک دانشور اور قابل کھلاڑیوں نے اس اہم بل کو قابلیت کی کھچڑی بنا دیا ہے، گزشتہ دنوں اسلام آباد میں اخباری مالکان کی تنظیم آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی (APNS) نے اہلِ صحافت اور اشتہاراتی کمپنیوں کیلئے سالانہ تقسیم انعامات کی تقریب منعقد کی۔ 

اس تقریب میں جناب صدرِ مملکت عارف علوی مہمان خصوصی تھے، اس موقع پر وزیراعظم کی مشیر خصوصی وزارتِ اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے یاد دلایا کہ حکومت کی طرف سے جو مسودہ قانونِ تحفظِ صحافت کارکنانِ صحافت کا بھیجا گیا ہے اس کا جواب ابھی تک نہیں ملا، کابینہ نے اسے منظور کر دیا ہے۔ 

حکومت کی جانب سے پیش کردہ مسودہ قانون اتنا سادہ نہیں ہے جتنا کہا گیا ہے،  اس میں دو طرح کے قانونی مسائل کو گڈمڈ کر دیا گیا ہے کیونکہ صحافت کے تنظیمی شعبہ اور کارکنانِ صحافت کا شعبہ الگ الگ ہے، ان کے مسائل مختلف ہیں۔ 

ان کی قانون سازی الگ الگ کرنے کی ضرورت ہے، بظاہر جو بہت سادہ بات نظر آرہی ہے وہ اتنی آسان نہیں، تمام متعلقہ ادارے جن کے مفادات متاثر ہو سکتے ہیں چاہے وہ کارکنانِ صحافت ہوں یا صحافتی ادارے و تنظیمیں، جب تک تمام اسٹیک ہولڈرز ایک رائے پر متفق نہ ہوں اس وقت تک کسی قسم کی قانون سازی کرنا، اُسے نافذ کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ 

امید ہے کہ حکومت اور وزارتِ اطلاعات اس اہم اور سنجیدہ ترین معاملے پر تمام متعلقین کو جب تک مکمل یک رائے نہ کر لے، اُس وقت نافذ نہیں کیا جائے گا، صحافت اور کارکنانِ صحافت کی قوت اور اثر پذیری کو موجودہ حکومت، تمام اہلِ سیاست اور اہلِ قانون و تجارت خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ صحافتی اداروں اور صحافی حضرات کا مطمئن ہونا کتنا اہم اور ضروری ہوتا ہے۔

بھارت میں جو دنگے فسادات ہو رہے ہیں خصوصاً بھارتی دارالحکومت نئی دلی میں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، جو کشمیر میں مظالم ہو رہے ہیں وہ کسی سے چھپے نہیں، اُدھر کوئی واقعہ دنیا کے کسی بھی کونے میں کیوں نہ ہو اس کی تمام تفصیل منٹوں میں دنیا کےسامنے آ جاتی ہے۔ 

یہی اہلِ قلم صحافتی کارکنان اور نشریاتی اداروں کا کارنامہ اور کمال ہے، دنیا سمٹ کر رہ گئی ہے، اب لاکھ کوشش کے باوجود بھی کوئی خبر چھپائی نہیں جا سکتی جیسے بھارت تمام کوشش کے باوجود اپنے کالے کرتوت دنیا سے چھپا نہیں سکا۔ 

موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، یہ ذرائع ابلاغ کا ہی کرشمہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے ظلم پر اپنی رائے کا اظہار کیے بنا رہ نہیں سکے، یہ بلاشبہ صحافت کی قوت ہی ہے کہ امریکی صدر اپنی مسلم مخالف سوچ اور مودی دوستی کے باوجود بھارت کے دورے کے موقع پر اپنی زبان روک نہیں سکے۔ 

انہوں نے پاکستان کی حمایت میں بیان دے کر مودی اور اُن کے تمام چھوٹے بڑے حمایتیوں کو ناراض کر دیا جس کے ردِعمل کے طور پر امریکی صدر پر تو اُن کا بس نہیں چلا لیکن اپنے ہی وطن کے مسلمانوں پر اپنا غصہ نکالنے کھڑے ہو گئے، پاکستان مسلمان ملک ہے اس لئے انہوں نے اپنا غصہ مسلمانوں پر نکالا۔ 

یوں اپنے گھر کے اپنے ہی ہم وطن لوگوں کو قتل کیا اور اُن کی املاک کو نذر آتش کیا، یہ اہلِ قلم، اہلِ صحافت ہی ہیں جو دنیا بھر کی اطلاعات، ہر قسم کی خبروں کو عوام تک پہنچانے کیلئے شب و روز اپنی جان ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں، اپنا خون پسینہ بہاتے ہیں تاکہ لوگ ہر طرح کی خبر سے باخبر رہیں۔ 

اس کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ اگر کوئی خبر کسی کے مزاج کے خلاف چل جائے تو نہ صرف اس اشاعتی و نشریاتی ذریعے کی بلکہ اس صحافی کی بھی شامت آجاتی ہے، اب تک سینکڑوں صحافی موت کے گھاٹ چڑھائے جا چکے ہیں۔ 

اب حکومتِ وقت اگر کسی بھی وجہ سے صحافت کی حفاظت کی طرف متوجہ ہوئی ہے تو یہ بہت اچھی علامت ہے۔ اللّٰہ کرے کہ حکومت تمام متعلقین (اسٹیک ہولڈرز) کو ساتھ لے کر چلے۔ 

اس مجوزہ قانون میں تجویز کردہ ترامیم کو شامل کر کے اسے کارآمد قانون بنا دے تاکہ کسی حد تک ہی سہی صحافتی اداروں کو اُن کے کارکنان کو تحفظ کا احساس ہو سکے جو خوف کے سائے صحافت پر منڈلا رہے ہیں ان کا کچھ تو تدارک ہو سکے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔