بلاگ

آزادیٔ صحافت کی جنگ جیتنا بھی ضروری ہے

فوٹو: فائل

کورونا وائرس نے تاریخ کا رُخ ہی بدل ڈالا ہے۔ موت کے خوف سے پوری دنیا تھرتھر کانپ رہی ہے۔ سائنسی ایجادات اور ذہنی اختراعات جو عصرِ حاضر کے عظیم کارہائے نمایاں شمار ہوتے تھے، وہ اب پاؤں کی زنجیر بنتے جا رہے ہیں۔ 

پورا عالمی نظام ہل چکا ہے اور دُور رَس اقتصادی، معاشی، معاشرتی اور تہذیبی تبدیلیوں کا ایک زبردست طوفان اُٹھنے والا ہے۔ موجودہ عالمی طاقتیں نیست و نابود ہو جائیں گی اور عوام کے اندر سے نئی طاقتوں کا ظہور ہو گا۔ آنے والے عہد میں انسانی آزادیوں اور حقیقی جمہوری قدروں کی سلطانی قائم ہو گی۔ 

اب تک قبل از مسیح اور بعد از مسیح کی تقسیم قائم تھی، جبکہ آئندہ قبل از کورونا وائرس اَور بعد از کورونا وائرس کی اصطلاحات استعمال ہوں گی۔ اِس وائرس کی زندگی غالباً چند روزہ نہیں ہو گی، اِس کے اثرات قرنوں پر محیط ہوں گے۔ اِس اعتبار سے پاکستان کو اپنی بقا کے لیے ہر لحظہ بدلتے ہوئے اقدامات کے بجائے اِن قدروں اور اصولوں کے ساتھ مستقل طور پر وابستہ رہنے کی جدوجہد کرنا ہو گی جو قدرت کے نزدیک اٹل اور لافانی ہیں۔

یہ امر واقعہ ہے کہ چین کے نو بڑے شہروں میں ووہان شہر سے سر اُٹھانے والا ہلاکت خیز وائرس پاکستان میں داخل ہو چکا ہے جس کے سبب ہماری حکومتوں، اہم ترین ریاستی اداروں اور عوامی رائےعامہ ہموار کرنے والی سیاسی جماعتوں میں ایک ہلچل پائی جاتی ہے۔ اٹلی کے اربابِ بست و کشاد کی طرح ہمارے اربابِ اختیار نے بھی اِس موذی مرض کو عام نزلہ زکام سمجھا اور اِس کی سنگینی اور تباہ کاری کا سرے سے ادراک ہی نہیں کیا۔ 

رسمی انداز میں شب و روز اعلیٰ سطح کے اجلاس ہوتے رہے، مگر ان تک اُمنڈتے ہوئے خطرات کی آہٹ نہیں پہنچی۔ چین میں کورونا وائرس کا پہلا مریض 30دسمبر 2019کو منظرعام پر آیا تھا جبکہ دو ماہ گزرنے کے بعد پاکستان میں پہلا متاثرہ شخص 26فروری 2020کو رپورٹ ہوا۔ 

منصوبہ بندی کے لیے دو ماہ کی مہلت کچھ کم نہیں تھی۔ اِس عرصے میں ایران کے اندر وائرس کے پھیلنے کی اطلاعات آ چکی تھیں جہاں پاکستان کے ہزاروں زائرین گئے ہوئے تھے جن کو واپس بھی آنا تھا۔ اگر ہماری وفاقی حکومت اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا ادارہ چوکس ہوتا، تو ایران- پاکستان سرحد پر واقع تفتان میں واپس آنے والے زائرین کے لیے وائرس سے محفوظ رہنے کے قابلِ اعتماد انتظامات کیے جا سکتے تھے۔ بلوچستان حکومت نے اپنے محدود وسائل سے قرنطینہ کے انتظامات کیے، مگر وہ ہر اعتبار سے ناکافی اور عالمی معیار کے اعتبار سے حددرجہ ناقص تھے۔ کورونا وائرس کو زیادہ تر اِسی علاقے سے پاکستان میں داخل ہونے کا موقع ملا۔ 

اب تک ہمارے ملک میں ایک ہزار سے زائد اشخاص کے بارے میں سرکاری طور پر اعلان ہو چکا ہے کہ اُن میں کورونا وائرس کے جراثیم موجود ہیں اور کچھ اموات بھی ہو چکی ہیں۔


وزیرِاعظم عمران خان نے بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے پیشِ نظر دو بار قوم سے خطاب کیا اور دو ہی بار میڈیا پر صحافیوں کو بریفنگ بھی دی۔ اُن کی باتوں سے احساس ہوا کہ وہ اب مسئلے کی سنگینی سے واقف ہو چکے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ معاملہ طُول بھی کھینچ سکتا ہے۔ 

دوسرا اندازہ یہ بھی ہوا کہ اُنہیں لاک ڈاؤن کے معاشی، سماجی اور سیاسی خطرات کا بھی گہرا شعور ہے اور وہ دہاڑی داروں اور غربت کی چکّی میں پِسی ہوئی پچیس فیصد آبادی کو بھوک اور فاقوں سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں، چنانچہ لاک ڈاؤن کی مخالفت اور معاشی سرگرمیوں کو بحال رکھنے پر اصرار کرتے رہے۔ منگل کے روز جب اُنہوں نے میڈیا پر سینئر صحافیوں کے تند و تیز سوالات کا سامنا کیا، تو وہ ایک ایسے شخص نظر آئے جو سیاسی بصیرت سے محروم ٹیکنوکریٹس اور مصاحبین میں گھرے ہوئے اور زمینی حقائق سے بڑی حد تک بےخبر ہیں۔ 

سوالات کے جوابات دیتے ہوئے وہ غیرضروری تفاصیل دہراتے اور اُن اعلیٰ سطحی اجلاسوں کا باربار ذِکر کرتے رہے جن میں وقت پر درست فیصلے کیے گئے نہ مستقبل کی پیش بندی ہوئی۔ اِس مکالمے سے اِس تاثر کو تقویت ملی کہ اصل فیصلے ’کہیں اور‘ ہو رہے ہیں۔ اُن کی شخصیت کو بڑا دھچکا اُس وقت لگا جب اُنہوں نے میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کا موضوع چھڑ جانے پر خاصی برہمی کا اظہار کیا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ آزادیٔ اظہار کے بغیر قوم تازگی، توانائی اور ارتقا سے محروم رہتی ہے۔ ہمارے دستور نے تمام آزادیوں اور بطورِ خاص آزادیٔ صحافت کو انسانی بنیادی حقوق میں شامل کیا ہے اور اِن کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔ 

جناب عمران خان جن کو میڈیا نے عوام کے ذہنوں میں اُتارا، وہ اِن دِنوں میڈیا کے خلاف نظر آتے ہیں۔ بہت ساری خوبیوں کے ساتھ ساتھ اُن کے اندر آمرانہ رجحانات بھی پائے جاتے ہیں۔ وہ اخبارات اور ٹی وی چینلز جو سخت دباؤ اور مالی آزمائشوں کے باوجود شہادتِ حق کا فریضہ ادا کرتے ہیں، اُنہیں اہلِ اقتدار تسخیر کرنے کی تدبیریں سوچتے رہتے ہیں۔ میر شکیل الرحمٰن جو میرِصحافت ہیں، اُن کے بال و پر کاٹنے کی مسلسل کوششیں ہوتی رہیں۔ 

اُنہیں نیب نے 34سال قبل زمین کی ناجائز خریداری کے الزام پر اُس وقت گرفتار کر لیا جب وہ نیب حکام کی طرف سے طلب کرنے پر حاضر ہوئے تھے۔ آئین، قانون، انصاف اور نیب کے اپنے وضع کردہ ضوابط کے خلاف اِس گرفتاری نے دنیا بھر کے صحافتی، سیاسی اور قانونی حلقوں میں غیرمعمولی اضطراب پیدا کر رکھا ہے اور میر صاحب کی گرفتاری کا مسئلہ ایک بین الاقوامی ادارے اقوامِ متحدہ میں بھی دائر کر دیا ہے۔ 

اِس نازک مرحلے میں فاضل چیف جسٹس آف پاکستان سے استدعا ہے کہ وہ اِس پوری صورتِ حال کا ازخود نوٹس لیں، میر شکیل الرحمٰن کی رہائی اور حکومت کو میڈیا کے چھ ارب روپے کے واجبات اَدا کرنے کے احکام صادر فرمائیں۔ گزشتہ مہینوں میں ہزاروں صحافی بےروزگار ہو گئے ہیں اور اِتنی ہی تعداد میں صحافی کئی کئی ماہ سے تنخواہوں سے محروم چلے آ رہے ہیں۔

کرونا وائرس کے خلاف جنگ جیتنے میں ہمارے ڈاکٹر، نرسیں اور سندھ حکومت کے ارکان قائدانہ کردار اَدا کر رہے ہیں، ہم اُنہیں ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔