بلاگ
25 دسمبر ، 2016

بڑھتی کرپشن اور نیب کا کردار

بڑھتی کرپشن اور نیب کا کردار

بلوچستان کے سابق وزیر خزانہ مشتاق رئیسانی کی بڑے پیمانے پر کی گئی بدعنوانی، رشوت ستانی اور ناجائز طریقوں سے اربوں روپے کے اثاثے بنانے اور قومی دولت کی بے دردی سے خرد برد اور رنگے ہاتھوں پکڑے جانا ہی بہت تھا، اس پر وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے بلندوبانگ دعوے، وفاقی حکومت کا رشوت ستانی اور بدعنوانی کے اس تاریخی کیس کو انجام تک پہنچانے اور ایک مثال بنانے کے اعلانات، سب دھرے کے دھرے رہ گئے اور ملکی تاریخ کے اس سب سے گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو ’’با عزت بری‘‘ کیا جا رہا ہے ۔

اس تمام صورت حال کا جیو نیوز کے معروف اینکر اور تجزیہ کار شاہ زیب خانزادہ نے اپنے پروگرام میں جائزہ لیا ۔ اپنے تجزیے میں انہوں نے بتایا کہ رواں سال مئی میں بلوچستان کے سابق سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے گھر سے برآمد ہونے والا تاریخ کا سب سے بڑا خزانہ ، جس میں نوٹوں سے بھرے 14 بیگ، کروڑوں روپے مالیت کا کئی کلو سونا، پرائز بانڈ ، بے شمار غیر ملکی کرنسی اور سیونگ سرٹیفیکٹس شامل تھے ۔

اتنی بڑی رقم کو گننے میں نیب کے اہلکاروں کو 7 گھنٹے سے زائد کا وقت لگا، پاکستانی اور غیر ملکی کرنسی کے ساتھ پرائز بانڈ، سیونگ سرٹیفکیٹس گننے کے لیے اسٹیٹ بینک سے نوٹ گننے کی مشینیں بھی منگوائی گئیں۔

پھر کچھ دنوں بعد سابق سیکریٹری خزانہ بلوچستان مشتاق رئیسانی کے ساتھی سہیل مجید کو گرفتار کیا گیا اور سہیل مجید کی نشاندہی پر کوئٹہ کی ایک بیکری سے مزید 57 لاکھ روپے برآمد کرلیے گئے۔

پھر اگلے مہینے خبر آئی کہ نیب نے کراچی کے علاقے ڈیفنس میں مشتاق رئیسانی کے ایک درجن کے لگ بھگ بنگلوں کا سراغ لگالیا اور پھر خبر آئی کہ یہ تمام بنگلےضبط کرلیے گئے، اس کے علاوہ بنگلوں میں کھڑی کئی گاڑیاں بھی قبضے میں لے لی گئیں ۔

اتنی بڑی تعداد میں رقم کی برآمدگی، جائیدادوں کی موجودگی اور پھر خبر آئی کہ بلوچستان کے کئی منصوبوں میں اربوں روپے کرپشن کی نذر ہوگئے،ان پے در پے خبروں نے ہر طرف ہلچل مچادی ۔

احتساب عدالت کوئٹہ میں مشتاق رئیسانی اور سہیل مجید پر دو ارب دس کروڑ روپے کی بدعنوانی کا مقدمہ زیر سماعت تھا اور مشتاق رئیسانی اور اس کے ساتھی کی گرفتاری کو 7ماہ بھی مکمل نہیں ہوئےتھے کہ وہ ہوا جس کا کسی کو گمان بھی نہیں تھا۔

بدعنوانی کے اس تاریخی کیس کو کرپشن کی روک تھام کےادارے نیب نےسابق صوبائی وزیر خزانہ مشتاق رئیسانی اور سابق مشیرخزانہ خالد لانگو کے فرنٹ مین سہیل مجید کی اربوں روپے کی کرپشن میں پلی بارگین یعنی مجرم کو سزا سے بچانے کے لیے مک مکا کرنے کی درخواست منظور کرلی۔

اور یہ مک مکا یا پلی بارگین بھی حیران کن اور عقل سے ماورا،جس میں مشتاق رئیسانی اور سہیل مجید شاہ صرف 2 ارب روپے سے کچھ زائد رقم نیب میں جمع کرائیں گے اور ’’با عزت بری‘‘ ہوجائیں گے۔

برسوں پہلے معروف دانشوراور شاعر دلاور فگار مرحوم نے کیا خوب کہا تھا ’’رشوت لے کر پھنس گیا ہے‘ رشوت دے کرچھوٹ جا ،،

بات یہیں ختم نہیں ہوئی نیب نے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف کے خلاف کرپشن کے دو ریفرنسز دائر کرنے اور سابق صدر آصف علی زرداری کے بہنوئی میر منور علی تالپور کے خلاف 3 انکوائریاں ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔

اب اسے کیا کہا جائے کہ ایک جانب ملک سے بدعنوانی، رشوت ستانی اور ملکی خزانے کو نقصان پہنچانے والے افراد کے خلاف کارروائی کرنے والے ادارے نیب کی جانب سے ملک بھر میں ’’ کرپشن کے خاتمے‘‘کی مہم چلائی جارہی ہے، موبائل پر میسجز بھیجے جارہے ہیں اور دوسری طرف یہی ادارہ نیب اربوں روپے کی خرد برد کرنے والوں کو سزا دلانے کے بجائے کرپشن کے ناقابل تردید ثبوت ملنے کے باوجود معمولی سی رقم کے عوض پلی بارگیننگ کررہا ہے،یعنی ملکی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے والے مجرم نہایت آسانی اور باعزت طریقے سے چھوڑے جا رہے ہیں ۔

نیب پلی بارگین تو کرلیتی ہے اور کرپشن میں ملوث ملزمان چھوٹ بھی جاتے ہیں، مگر نیب ان سے لوٹی گئی رقم کا عشر عشیر بھی وصول نہیں کرپاتی،اس پر ستم ظریفی یہ کہ پلی بارگیننگ کے تحت کیے گئے معاہدے میں طے کی گئی پوری رقم تک وصول نہیں ہوپاتی ۔

تقریباً دو ماہ قبل ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ بھی نیب کے پلی بارگین کے قانون کو سخت تنقید کا نشانہ بناچکی ہے، چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نہایت سخت ریمارکس بھی دے چکے ہیں۔

افسوس صد افسوس کہ ان حرکتوں کی وجہ سے دُنیا ہمارے ملک پر ہنس رہی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بدعنوانی ، کرپشن اور ملکی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کو بچانے کے قوانین نافذ ہیں اور ان کے تحت ملک چلایا جارہاہے۔

اعلیٰ عدلیہ نے اپنے تاریخ ساز ریمارکس دیتے ہوئےکہا تھا کہ ’’ کرپشن کرو، پیسے دے کر عہدوں پر واپس آجاؤ، نیب میں جاکر کافی کا ایک کپ پئیں، مک مکا کریں، سارے معاملات طے کریں اور واپس اپنی نوکری پر چلے جائیں، رقم کی رضاکارانہ واپسی پر قسطوں کی سہولت بھی دی جاتی ہے۔۔۔ بدعنوانی میں ملوث عوامی نمائندے عدالتوں کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے سےبچنے کے لیے نیب حکام سے مک مکاکرلیتے ہیں، جسٹس عظمت نے ریمارکس دیے کہ نیب بازارمیں آوازیں لگاتا ہے، کرپشن کرلو، پر رضا کارانہ واپسی کرالو، تقرریوں پر بھی نیب میں رولز پر عمل نہیں ہورہا، ایک انجینئرکو ڈی جی لگایاہوا ہے‘‘۔

شاہ زیب خانزادہ نے بتایا کہ گزشتہ سال نیب کی سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ ہی نیب کی کارکردگی کاپول کھولنے کے لیے کافی ہے۔

نیب کے اپنے2015 کے اعداد وشمارکےمطابق ادارے نے گزشہ 16 سالوں کے دوران 285 افراد سے پلی بار گیننگ کی جس میں نیب کے ساتھ معاہدے میں ان افراد نے 15 ارب روپے کی خرد برد کے بدلے صرف پانچ ارب تین کروڑ چھ لاکھ 90 ہزار روپے دینے کا معاہدہ کیا،لیکن حکومتی خزانے میں صرف 2 ارب 73 کروڑ روپے ہی جمع کرائے گئے۔

نیب کی اپنی رپورٹ کہتی ہے کہ صرف 18 فیصد رقم پلی بار گین کے ذریعے ری کور ہوسکی، اس کا مطلب ہے نیب1999 سے 2015 تک 12.3 ارب وصول نہیں کرسکا۔

جبکہ حیران کن طور پر دوسری اسکیم وولنٹری ریٹرن اسکیم یعنی رضاکارانہ طور پر جن افراد نے رقم واپس دینے کا معاہدہ کیا
ان کی تعداد1080 ہے جنہوں نے نیب کو12.8 ارب دینے کا وعدہ کیا لیکن9 ارب ادا کیے۔

یعنی کہ نیب کی کاوشوں کے بغیر 73 فیصد رقم ری کور ہوئی اگر پلی بارگیننگ اور وولنٹری ریٹرن کے اعدادو شمار کو جمع کیا جائے تو 15.7 ارب روپے بنتے ہیں جو نیب نے وصول کرنے ہیں ۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نیب کے اعداد و شمار نیب کی کارکردگی ہی نہیں ادارے کی افادیت پر بھی سوالات اُٹھا رہے ہیں۔

نیب کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 151 افراد نے نیب سے معاہدہ کیا لیکن بعد میں مکر گئے ،اس طرح یہ افراد 18.4 ارب روپے کے نادہندہ ہیں۔

اگر صرف بینک بچت کی شرح کی بنیاد پر15 سال میں اضافہ کا تخمینہ لگایا جائے تو حیران کن انکشاف ہوتا ہے۔ اگر15.7ارب روپے بینک میں رکھے جاتے تو 15سالوں میں یہ رقم اس وقت31 ارب روپے ہوتی۔ اس کے بعد اس رقم کا منافع اور اس کی سرمایہ کاری سے بھی مزید منافع کمایا جا سکتا تھا۔

اگر 15.7ارب روپے کی یہ رقم کراچی اسٹاک ایکسچینج میں لگائی جاتی تو ہم دیکھتے ہیں کہ 15 سال کے دوران کے ایس ای میں2224فیصد اضافہ یا تبدیلی ہوئی، یوں اس حساب سے یہ رقم 364.8 ارب روپے بنتی ہے۔

اگر 15.7ارب روپے کی رقم کی سونے میں سرمایہ کاری کی گئی ہوتی جوگزشتہ 15سالوں کے دوران سونے کی قیمت میں 302فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا تو اس حساب سے یہ رقم 63 ارب بنتی ہے۔

اگر 15.7 ارب روپے کی اس رقم سے بینکوں کے تحت جاری کردہ ٹریژری بلز میں سرمایہ کاری کی گئی ہوتی تو 15سالوں کے دوران ٹی بلز کے منافع میں ہونے والی 258فیصد ترقی کے حساب سے یہ رقم 56 ارب تک پہنچ جاتی۔

اگر15.7 ارب کی اس رقم کی قومی بچت کی اسکیم ڈیفنس سیونگز سرٹیفکیٹس میں سرمایہ کاری کی گئی ہوتی تو 15سالوں میں اس اسکیم میں لگائی گئی رقم 364 فیصد اضافےکے حساب سے یہ رقم 73 ارب ہو جاتی ۔

اگر15.7 ارب روپے سے میوچل فنڈز میں سرمایہ کاری کی گئی ہوتی تو 15 سالوں میں یہ 1486فیصد اضافہ سے رقم 492 ارب تک ہوجاتی۔

15.7 ارب روپے سے اگر 15 سال قبل امریکی ڈالر میں سرمایہ کاری کی گئی ہو تی تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس دوران روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر میں 77فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ،اس حساب سے یہ رقم 28ارب روپے بن جاتی۔

15.7 ارب روپے کی رقم سے اگر پاکستان انوسٹمنٹ بانڈز میں سرمایہ کاری کی گئی ہوتی تو 15سال کے بعد 302 فیصد اضافے کے ساتھ آج یہ رقم 63ارب روپے ہو جاتی ۔

نوے کی دہائی میں جو ہوا، سو ہوالیکن اس کی ذمے داری وزیراعظم نوازشریف پر عائد ہوتی ہے کہ وہ نیب کو ایک آزاد احتساب کا ادارہ بناتے۔

اس کی ذمہ داری آصف علی زرداری کی تھی وہ آزاد نیب کو آزاد ادارہ بناتے،دونوں نے نہیں بنایا،اس دوران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن تین تین بار اقتدار میں آچکے ہیں لیکن نہ تو ان پر مبینہ کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کی گئیں اور نہ انھوں نے احتساب ہونے دیا ۔ اپوزیشن نے ہر بار کرپشن کا الزام لگایا اور دوسری جانب سے یہ کہا جاتا رہا ہم ہر فورم پر پیش ہونے کو تیار ہیں۔

مئی 2006 میں وہ دونوں جماعتیں ، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن ،جو ایک دوسرے پر کرپشن کا الزام لگاتی رہی تھیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوئیں اور میثاق جمہوریت پر اتفاق کیا لیکن اس کے بعد جب حکومت آئی تو نہ میثاق جمہوریت کی اُس شق پر عمل ہوا جس میں دونوں نے آزاد احتساب کا ادارہ بنانے پر اتفاق کیا تھا اور نہ خود احتسابی کے لئے کوئی قانون بنا۔

یہ معاملہ صرف 90 کی دہائی تک محدود نہیں۔ 2008 میں پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی نواز شریف اور شہباز شریف بار بار سابق صدر آصف علی زرداری پر کرپشن کے الزامات لگاتے رہے، میاں نواز شریف قوم سے وعدہ کرتے رہے کہ وہ اقتدار میں آئے تو لوٹی ہوئی دولت ملک میں واپس لائیں گے اور سوئس اکاؤنٹس اور دیگر کا حساب لیں گے لیکن وہ بھی ایک سیاسی بیان اور سیاسی نعرہ ہی ثابت ہوا ۔

کسی کو یاد ہو یا نہ یاد ہو لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے، 2013 کے بعد نواز شریف کی حکومت آئی تو نہ احتساب ہوا نہ کسی کو خیال آیا کہ انہوں نے قوم سے لوٹی ہوئی دولت ملک میں واپس لانے کا وعدہ کیا تھا ۔

چند دن پہلے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار اپنے اوپرلگنے والے الزامات کا جواب پیپلزپارٹی کے کرپشن کے الزامات سے دیتے رہے، جن کے خلاف کارروائی کا وعدہ ان کے اپنے لیڈر اور وزیر اعظم میاں نوازشریف اور ان کے بھائی وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف 2013 کے انتخابات سے پہلے کرتے رہےاور پھر بھول گئے۔

اور اب ایک بار پھر چوہدری نثار کو کرپشن کے الزامات یاد آگئے ، یہ دن بھی گزر جائیں گےاور ان دھمکیوں سے ایک بار پھر جمہوریت کے نام پر مفاہمت کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے دونوں وہ بادل ثابت ہوں گے جو گرجتے تو ہیں مگر برستے نہیں ہیں۔ رہی بات عوام کی تو وہ ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر بھول جائیں گے یا پھر سیاسی چال بازی کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔

تو یہ بات سچ ثابت ہو رہی ہے کہ کرپشن کرنے والے آرام سے کرپشن کریں، ملک کے خزانے کو جی بھر کے لوٹیں، بے خوف و خطربدعنوانیوں کے ریکارڈ قائم کریں، اگر پکڑے نہیں گئے جس کے امکانات بہت روشن ہیں تو پیسے آپ کے،مزے کریں، لیکن اگر کسی وجہ سے یا اوپر والوں سے ان بن ہو گئی اور پکڑے گئے تو نیب سے معاملات طے کرلیں جس کا راستہ خود نیب آپ کے لیے ہموار کرے گی اور ایک بار پھر آپ باعزت طریقے سے اپنے عہدے پر دوبارہ تعینات ہو جائیں ۔

یوں کرپشن کر کے زیادہ سے زیادہ رقم کمائیں اور اگر پھر پکڑے جائیں تو پلی بارگین میں جتنا ممکن ہو کم سے کم رقم واپس کرنے کا وعدہ کریں اور جتنے کا وعدہ کریں اس پیسے کی قسطیں کرا لیں اور جوقسطوں میں رقم واپس کرنے کاوعدہ کریں وہ بھی پورا نہ کریں، کیوں کہ اس ملک کے وزیراعظم کو 2013 سے پہلے کرپشن کے خلاف کارروائیوں کے وعدے یاد نہیں، احتساب کے خلاف آزاد ادارہ بنانے کا وعدہ یاد نہیں اور کرپشن کا خاتمہ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تو پھر کسی کرپٹ شخص کو کیا خوف! اس کے لیے میدان صاف ہے ، ماحول سازگار ہے ،، ایسے لوگ بے خوف بدعنوانیوں کے نئےریکارڈ قائم کریں ، با اثراور باعزت شخصیت بنیں ، اس لٹے پٹے ملک کے قرضے میں لی گئی رقم کو بھی لوٹیں اور مزے کریں۔

لیکن ایسے لوگ شاید بھول جاتے ہیں کہ اللہ کے ہاں دیر تو سکتی ہے لیکن اندھیر نہیں ، وہ ڈریں اس وقت سے جب عوام بدعنوان عناصر کا احتساب کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں ،وہ شاید بھول گئے ہیں کہ ’’ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے ۔ خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا ۔‘‘