10 مئی ، 2020
قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف 20 سال پرانی انکوائری دوبارہ کھولنے کا فیصلہ ایسا ہے، جسے پاکستان کی سیاست پر نظر رکھنے والے حلقے مستقبل قریب کے سیاسی منظر نامے سے جوڑ رہے ہیں ۔
چوہدری برادران نے نیب کے اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ ان پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور آمدن سے زائد اثاثہ جات بنانے کے الزامات ہیں۔ 2017 اور 2018 ء میں اس حوالے سے تفتیش کے تین کیس بند کرنے کی سفارش کی گئی تھی لیکن اب یہ انکوائریز دوبارہ کھول دی گئی ہیں ۔
چوہدری برادران نے عدالت میں دائر کردہ اپنی درخواست میں کہا ہے کہ چیئرمین نیب کے پاس یہ انکوائریز دوبارہ کھولنے کے لیے کوئی ثبوت یا شواہد نہیں ہیں اور ان کے خلاف منی لانڈرنگ قانون کے تحت نیب کی کارروائی کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ درخواست دہندگان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیب کی ساکھ اور جانبداری عوامی مباحثے کا موضوع ہے کیونکہ اس ادارے کو پولیٹکل انجینئرنگ کے لیے استعمال کیاجاتا ہے ۔
ان کے خلاف انکوائری دوبارہ کھولنے کا فیصلہ انہیں ’’ مخیط اور مقید ‘‘ رکھنے اور ان کی سیاسی جماعت کے کردار کو محدود رکھنے کے لیے کیا گیا ہے ۔ چوہدری برادران کے موقف کے جواب میں نیب کی طرف سے جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے ، اس میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب نے چوہدری برادران کے خلاف کسی نئی انکوائری کا حکم نہیں دیا ہے ۔ پرانے مقدمات کو غیر معینہ مدت تک الماریوں کی زینت نہیں بنایا جا سکتا۔
ہم اس وقت نیب کے ادارے کی ساکھ اور کارکردگی پر بات نہیں کریں گے۔ اس پر چوہدری برادران کی بات جاری مباحثے میں ایک نئی اور سیاسی طور پر مؤثر آواز ہے۔ یہ بات زیادہ اہم ہے کہ چوہدری برادران کے خلاف انکوائری دوبارہ کھولنے کے لیے اس وقت کا انتخاب کیوں کیا گیا۔
2018 ء کے عام انتخابات سے پہلے جن ’’ پو ٹینشل ‘‘ امیدواروں کو تحریک انصاف میں شامل کرایا گیا تھا یا اس کا سیاسی اتحادی بنایا گیا تھا ، ان میں سے اکثریت کے خلاف نیب کی تحقیقات ، تفتیش ، انکوائریز یا کیسز چل رہے تھے ، روک دیئے گئے تھے یا التوا میں ڈال دیئے گئے تھے ۔
ان ’’ پوٹینشل ‘‘ امیدواروں کو وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین نے پارٹی میں شامل کرایا تھا یا اتحادی بنایا تھا ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جہانگیر ترین کی اس حکمت عملی کی وجہ سے تحریک انصاف کی مرکز ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومتیں بنیں ۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) ایک سیاسی جماعت کے طور پر تحریک انصاف کی اہم ترین سیاسی اتحادی ہے ۔ مسلم لیگ (ق) کے پنجاب اسمبلی میں ووٹوں کی وجہ سے پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے ۔
چوہدری برادران کے ایک اشارے سے یہ حکومت ختم ہو سکتی ہے ۔ گزشتہ ماہ جب چوہدری پرویز الٰہی سے ، جو اسپیکر پنجاب اسمبلی بھی ہیں ، مسلم لیگ (ن) کے رانا ثناء اللہ کی ملاقات سے اندازہ ہو گیا تھا کہ کچھ معمول کے مطابق نہیں ہے ۔ چوہدری برادران کے خلاف نیب انکوائریز کو الماریوں سے دوبارہ کھولنے کا تعلق اگر ملک کے سیاسی حالات سے نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ الماریوں میں پڑی ہوئی دیگر فائلیں بھی نکالنا ہوں گی ۔
اگر نہ نکالی گئیں تو پھر سوالات اٹھیں گے ۔ بہر صورت ملکی سیاست پر اس کا اثر تو پڑے گا ۔
’’پوٹینشل‘‘ امیدواروں کو جمع کرنے کی سیاسی حکمت عملی کے معمار جہانگیر ترین کے خلاف بھی چینی اور آٹا اسکینڈل کی بڑی انکوائری چل رہی ہے۔ چوہدری برادران کے خلاف دوبارہ انکوائری کھلنے سے سارے ’ ’ پوٹینشل ‘‘ امیدوار یقینا خوف زدہ اور عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہوئے ہوں گے۔
فرض کریں کہ نیب صرف اور صرف ’’ریاست پاکستان ‘‘ کے لئے کام کر رہا ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے بھی اس کا کوئی سیاسی کردار نہیں تھا اور اب بھی اس کا کوئی سیاسی کردار نہیں ہے تو پھر یقینا ان مقدمات اور انکوائریز کے سیاسی اثرات سے بھی اس کا سروکار نہیں ہونا چاہئے ۔
ہم چوہدری برادران کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ نیب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو پھر بھی نیب کی کارروائیوں کے سیاسی اثرات مرتب ہوں گے ۔ یا تو چوہدری برادران دباؤ میں آجائیں گے ، جیسا کہ وہ خود کہہ رہے ہیں کہ انہیں دوبارہ لانے کے لیے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے ۔ یا وہ دباؤ میں نہیں آئیں گے ۔ کچھ نہ کچھ تو بہرحال ہو گا ۔
پوٹینشل امیدواروں اور سیاست دانوں کو جمع کرنے والے جہانگیر ترین بھی اپنے خلاف انکوائری میں چوہدری برادران کی طرح کچھ نہ کچھ فیصلہ کریں گے ۔ مانا کہ نیب کا سیاست میں کوئی کردار نہیں لیکن یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ پوٹینشل امیدواروں اور الیکشن جیتنے والے بااثر سیاست دانوں کا پاکستان کی سیاست میں بہت بڑا کردار ہے ۔ وہ اپنے خلاف نیب کے مقدمات یا انکوائریز پہلے ختم کر اسکتے ہیں تو اب بھی ان کے پاس ایسے سیاسی مہرے ہوں گے جنہیں استعمال کرنے کے لیے وہ ان مقدمات اور انکوائریز کا سامنا بھی کر لیں گے ۔1947 کے بعد سے احتساب کے قوانین اور نیب جیسے ادارے ’’ ریاست ‘‘ کے لیے اپنا کام کر رہے ہیں ۔
اس کے باوجود پاکستان میں سیاسی تبدیلیاں بھی رونما ہوتی ہیں اور سیاسی ارتقا بھی جاری ہے ۔ پاکستان کی سیاسی قوتوں نے اپنے مخالفین کے تضادات کو اپنی سیاست کا رخ دیا ہے ۔ نیب کی الماریوں میں رکھی ہوئی پرانی فائلیں ایسے ہی تضادات کا تاریخی ریکارڈ ہیں۔ فائلیں کھولو اور بند کرو والے متضاد احکامات ہی دراصل حقیقی تضادات ہیں، جو سیاست میں ارتقا کا باعث بن رہے ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں ایک دلچسپ کھیل شروع ہونے والا ہے۔ نیب اگرچہ ریاست کے لیے کام کر رہا ہے لیکن اس کے سیاسی اثرات تو بہرحال ہوں گے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔