22 جنوری ، 2020
لاہور: حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے پاکستان مسلم لیگ(ق) کے ساتھ کیے گئے وہ وعدے پورےکرنا شروع کردیئےہیں جو تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے ہیں۔
پی ایم ایل (ق) کے سینئر رہنما نے دی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حالات ٹھیک ہورہے ہیں اورتعلقات میں موجود خلا پُرہورہاہے۔
اگر موجودہ سوچ برقرار رہی تو زیادہ تر مسائل جن سے تعلقات خراب ہوتے ہیں انھیں حل کرلیاجائےگا۔
ان کے مطابق وفاقی حکومت نے پی ایم ایل(ق) کی جانب سے تجویز کردہ افسران کو اُن شہروں میں تعینات کرنا شروع کردیا ہے جہاں ان کے نمائندے 2018 کاالیکشن جیتے تھے۔
دی نیوز کے رابطہ کرنے پر پی ایم ایل(ق) کےرہنماچوہدری مونس الہٰی نے امید ظاہر کی کہ تعلقات تیزی سے بہتر ہورہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ان کی پارٹی حکمران اتحاد کی اتحادی ہےاوراس کیلئے کوئی مشکل کھڑی کرنا نہیں چاہتی۔
عمران خان اور چوہدری پرویز الہٰی کے درمیان کشیدگی موجود ہے
تاہم پی ایم ایل (ق) کے دیگر رہنما کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان اور پنجاب اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الہٰی کے درمیان کشیدگی پہلے کی طرح ہی موجود ہے۔ دونوں کے درمیان ایک ملاقات کرانے کی کوششیں بے سود ثابت ہوئی ہیں۔ کافی عرصے سے وہ ملے ہیں اور نہ ہی مستقبل قریب میں ان کے ملنے کا کوئی پلان ہے۔
اندرونی ذرائع کے مطابق جمعیت علمائے اسلام فضل کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے دیےگئے دھرنے میں ایک موقع پر انکشاف کیاکہ گجرات کے چوہدریوں نے یہ دھرنا سپونسر کیا تھا اور اس کی فنڈنگ بھی کی۔
تاہم اسی ملاقات میں ایک اور طاقت ور رہنما نے اس کی تردید کی اور کہاکہ یہ معلومات غلط ہیں جو کچھ ملاقات میں ہوا وہ پرویز الہی نے بھی بتایا۔ انہوں نےاس پر پریشانی کا اظہار کیا۔
ایک اور موقع پر اثرورسوخ رکھنےوالے رہنما نے ملاقات میں پرویزالہٰی پر زور دیاکہ فضل الرحمٰن کی موجودگی میں صحافیوں سے گفتگونہ کریں کیونکہ فضل الرحمٰن کو میڈیا کی غیرضروری توجہ مل رہی ہے۔
تاہم انہیں بتایاگیاکہ کسی بھی حالت میں دھرنے کو بہت زیادہ کوریج ملے گی کیونکہ یہ واقع الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی جانب سے رپورٹنگ کے قابل ہے۔ ان سب باتوں کے بعد ان کی واپسی پر اسپیکر نے اپنے ساتھیوں کو ملاقات میں ہونے والی باتوں کے بارے میں بتایا۔
کسی بھی وفاقی شخصیت نے چوہدری شجاعت حسین کی عیادت نہیں کی
ان کے پارٹی لیڈرز نے انہیں بتایاکہ یہ فضل الرحمٰن کی کوریج کامعاملہ نہیں بلکہ بطور اثرو رسوخ والے رہنما پرویز الہٰی کی عوامی شہرت حاصل کرنے کاہے۔ اندرونی ذرائع کہتے ہیں کہ کسی بھی وفاقی شخصیت نے پی ایم ایل (ق) کے رہنما چوہدری شجاعت حسین کی عیادت نہیں کی جب وہ علاج کے بعد جرمنی سے واپس آئے، وہ کافی زیادہ بیمار تھے۔
دوسری جانب وہ کہتے ہیں کہ سخت سیاسی حریفوں نےچوہدریوں کو ٹیلی فون کرکے چوہدری شجاعت سے اظہارِ یکجہتی کیا اور ان کی صحت کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے کہاکہ مختلف سیاسی پارٹیوں میں ہونے کے باوجودچوہدری شجاعت حسین کے فضل الرحمٰن اور ان کے والدکےساتھ تعلقات ہیں۔
حکومت کی طرف سے قبولیت کےباعث چوہدریوں نے جے یوآئی (ف) کے سربراہ سے بات کی۔ جب کچھ وفاقی وزراء نے امن کی کوششوں کو خراب کرنے کی کوشش کی تو پرویز الہٰی مذاکرات کے عمل کو ختم کرکے اسلام آبادسے لاہور آگئے۔
پرویز الہٰی کو پنجاب میں وزیرِ اعلیٰ بنانے سے متعلق پی ایم ایل(ن) کی پیش کش کے بارے میں پی ایم ایل(ق) کے اندرونی ذرائع کے بتایاکہ پی ایم ایل(ن) صرف حکمران اتحاد کو توڑنے کیلئے دانہ ڈال رہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ یہ ایک کھلا راز ہے کہ کچھ رہنما جنہوں نے پی ایم ایل(ق) کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی وہ اکثر دونوں جماعتوں کے درمیان تعلقات خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پی ایم ایل(ن) صرف حکمران اتحاد کو توڑنے کیلئے دانہ ڈال رہی ہے
پی ایم ایل(ق) کو پتہ ہے کہ وفاقی حکومت وعدے پورے کرنے پر رضامند ہے، جو اتحاد بناتے وقت تحریری طورپرلکھے گئے تھے۔ انہوں نےکہاکہ جب تمام پارٹیاں ایک ہی طرح کے تحفظات کااظہار کررہی ہیں توقدرتی طور پر سینئر پارٹنرز پر دباؤ ہے۔
تاہم انہوں نے زوردیاکہ تعلقات کو بہترکرنے کیلئے ثابت قدمی دکھاناہوگی۔ پی ایم ایل(ق) کوپنجاب حکومت کی جانب سے بنائے گئےمقامی حکومت کے قانون پرسنجیدہ اعتراضات ہیں اور یہ برقراررہا تو ان کا آئندہ ہونےوالے لوکل کونسل الیکشن میں پی ٹی آئی کے ساتھ کوئی اتحاد نہیں رہے گا۔