11 مئی ، 2020
زیادہ پرانی بات نہیں شوگر اسکینڈل کی انکوائری شروع ہوئی تو کھلبلی مچ گئی۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن والے وزیراعظم کے پاس پہنچ گئے اور اُنہیں کہا کہ اگر انکوائری بند نہ ہوئی تو مارکیٹ سے چینی اٹھا لی جائے گی۔
وزیراعظم بھاگے بھاگے صدر صاحب کے پاس پہنچے اور بتایا کہ اگر شوگر اسکینڈل کی انکوائری بند نہ ہوئی تو چینی مہنگی ہو جائیگی۔ صدر صاحب نے اس انکوائری پر شدید خفگی کا اظہار کیا اور پھر یہ انکوائری بند ہو گئی۔
کیا آپ کو سمجھ آ گئی کہ یہ خاکسار کون سی انکوائری کی بات کر رہا ہے؟ جی ہاں یہ انکوائری آج سے پندرہ سال قبل 2005میں شروع ہوئی تھی اور یہ ایف آئی اے نے نہیں بلکہ نیب نے شروع کی تھی۔ آپ کو یہ بتانا بھی بہت ضروری ہے کہ اُس وقت نیب کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز تھے۔
اُن کی تایا زاد بہن کی شادی جنرل پرویز مشرف کے بیٹے سے ہوئی تھی لیکن شاہد عزیز لاہور کے کور کمانڈر اور چیف آف جنرل ااسٹاف اس رشتہ داری کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی قابلیت اور ایمانداری کی وجہ سے بنے تھے۔ لاہور کے کور کمانڈر کی حیثیت سے اُنہوں نے ڈی ایچ اے لاہور میں ایک انکوائری شروع کرائی تو نیب کے چیئرمین نے اُن کی انکوائری شروع کر دی تھی۔
چیف آف جنرل اسٹاف کی حیثیت سے اُنہوں نے اپنے فوجی اڈے امریکا کو دینے کی مخالفت کی تو کبھی پرویز مشرف کی اس خواہش کے سامنے ڈٹ گئے کہ پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لینا چاہئیں۔ ایک دن جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ طارق عزیز نے چھ ستمبر کو لاہور میں گھوڑوں کی ریس کا اہتمام کیا ہے تم وہاں بطور چیف گیسٹ چلے جاؤ۔
لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز نے کہا، سر مجھے اس کام سے دور رکھیں مشرف نے کہا کہ یہ ریس قانون کے مطابق ہوتی ہے لیکن شاہد عزیز نے کہا کہ سر اچھا نہیں لگے گا کہ چھ ستمبر کے دن ایک کور کمانڈر جوئے کی ریس میں انعام بانٹ رہا ہو۔ کچھ ہی عرصے میں شاہد عزیز کو فوج سے ریٹائر کر کے نیب کا چیئرمین لگا دیا گیا۔ شاہد عزیز سے میری پہلی ملاقات نیب ہیڈ کوارٹر میں ہوئی۔ اُنہوں نے بتایا کہ وہ کرپشن کے خلاف ایک بڑی جنگ شروع کرنے جا رہے ہیں اور اُنہیں میڈیا کا تعاون درکار ہے۔
جب اُنہوں نے شوگر اسکینڈل کی انکوائری شروع کی تو ہم اُن کے ساتھ کھڑے ہو گئے لیکن پھر ایک دن یہ ہوا کہ نیب نے اینٹی کرپشن ڈے منایا جس میں عبدالستار ایدھی اور شہزاد رائے بھی آئے۔
چیف گیسٹ وزیراعظم شوکت عزیز تھے لیکن اینٹی کرپشن ڈے پر تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیب ایک کرپٹ اور نااہل ادارہ ہے جو حکومت کے باعزت ملازمین کو ذلیل کرتا ہے۔ آخر کار نیب نے ایک بیان جاری کر دیا جس میں کہا گیا تھا کہ چینی کی انکوائری بند کر دی گئی ہے کیونکہ کہا جا رہا ہے کہ اس انکوائری سے چینی کی قیمت بڑھ جائے گی لیکن نیب اس موقف سے اتفاق نہیں کرتا۔ نیب کے اس بیان پر صدر مشرف کے چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل حامد جاوید نے شاہد عزیز کیساتھ بڑی خفگی کا اظہار کیا۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں اس پندرہ سال پرانی انکوائری کا قصہ کیوں لیکر بیٹھ گیا ہوں؟ اس انکوائری کو بند کرانے کی داستان لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز نے اپنی کتاب ’’یہ خاموشی کہاں تک؟‘‘ میں لکھ ڈالی تھی۔
یہ کتاب 2012ءمیں شائع ہوئی، اب کچھ عرصہ سے شاہد عزیز لاپتا ہیں۔ غیرملکی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق وہ افغانستان یا شام میں کسی ڈرون حملے کا شکار ہو گئے لیکن اُنکے خاندان کے پاس کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے۔ اُنہوں نے اپنی کتاب میں شوگر اسکینڈل کے علاوہ آئل کمپنیوں کی انکوائری بند کرانے کی کہانی بھی لکھ ڈالی۔
یہ اکتوبر 2006ءکا قصہ ہے۔ مشرف نے آئل کمپنیوں کے خلاف انکوائری رپورٹ پر چیئرمین نیب کو اپنے دفتر بلایا اور غصے میں رپورٹ اُٹھا کر پرے پھینک دی۔ اس بدتمیزی پر شاہد عزیز اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے اور کہا کہ آپ کوئی دوسرا چیئرمین نیب ڈھونڈ لیں میں آپ کے ساتھ کام نہیں کر سکتا۔
جنرل مشرف بھی کھڑے ہو گئے اس سے پہلے کہ کچھ اور ہو جاتا جنرل حامد جاوید نے کہا، سر ہم کوئی حل نکالتے ہیں اور شاہد عزیز وہاں سے نکل آئے۔ شوگر اسکینڈل اور آئل کمپنیوں کے خلاف انکوائریوں کو بند کرانے میں وزیراعظم شوکت عزیز کے علاوہ حامد جاوید اور چیئرمین سی بی آر عبداللہ یوسف نے اہم کردار ادا کیا۔
یہ معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا تو شاہد عزیز پر الزام لگایا گیا کہ وہ اس سازش میں شریک ہیں۔ شاہد عزیز کی جس رپورٹ پر مشرف ناراض ہوئے اُس میں لکھا تھا کہ آئل کمپنیاں دونوں ہاتھوں سے پاکستانی عوام کو لوٹ رہی ہیں اور 81ارب روپے حکومت کے بھی کھا گئی ہیں۔
مشرف کے لئے شاہد عزیز کو نیب سے نکالنا مشکل ہو گیا تھا کیونکہ معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا تھا۔ حامد جاوید نے حل یہ نکالا کہ نیب کی انکوائری پر ڈاکٹر عشرت حسین کو اپنی رائے دینے کے لئے کہا گیا اور ڈاکٹر صاحب نے نیب کی انکوائری سے اختلاف کر دیا اور شاہد عزیز کو خاموش کر دیا گیا۔
شاہد عزیز نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ 2007ءمیں مجھے صدر کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر طارق عزیز نے صدر مشرف کا پیغام دیا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کیخلاف تمام مقدمات بند کر دیے جائیں۔
پھر شاہد عزیز خرابی صحت کا بہانہ بنا کر دو ماہ کی چھٹی پر چلے گئے اور دو ماہ بعد گھر سے صدر کو استعفیٰ بھیج دیا۔ وہ شاہد عزیز جو پرویز مشرف جیسے طاقتور صدر کے سامنے سچی بات کہہ ڈالتا تھا وہ شوگر اسکینڈل اور آئل کمپنیوں کے خلاف اسیکنڈل کی انکوائری مکمل نہ کر سکا تو کیا 2020میں ایف آئی اے شوگر اسکینڈل کی انکوائری مکمل کر پائے گا؟
حکومت کے ایک پاور فل بیورو کریٹ کا کہنا ہے کہ پاور کمپنیوں کے خلاف انکوائری آگے نہیں چلے گی، شوگر اسکینڈل کی انکوائری کو نہیں روکا جا سکتا کیونکہ اس معاملے پر وزیراعظم عمران خان قوم سے وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ چینی اور آٹے گندم کے معاملے میں لوٹ مار کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے۔
اس معاملے میں اگر عمران خان نے یو ٹرن نہ لیا اور شوگر مافیا کے خلاف واقعی کارروائی شروع ہو گئی تو ایف آئی اے کی ساکھ میں بھی اضافہ ہو گا اور ایف آئی اے دراصل نیب کا متبادل بن کر سامنے آئے گی۔
نیب جہاں 2005ءمیں کھڑا تھا آج بھی وہیں کھڑا ہے۔ اس ادارے کو شاہد عزیز نہیں چلا سکے تو جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کیا چلائیں گے؟ آج کل مشرف دور کے کچھ پرانے چہرے ہمیں یہ خبر دے رہے ہیں کہ عید کے بعد نیب ٹارزن بننے والا ہے۔ ان صاحبان سے گزارش ہے کہ ٹارزن کوئی حقیقی نہیں افسانوی کردار تھا اور نیب کی اکثر کہانیاں بھی صرف افسانہ ہوتی ہیں۔
نیب کی طرف سے چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف ایک پرانے افسانے کو دوبارہ حقیقت بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن نیب سے یہ کام نہ ہو پائے گا۔ اب جو بھی کرنا ہے ایف آئی اے نے کرنا ہے اور ایف آئی اے یہ کام شوگر اسکینڈل کی انکوائری کے ذریعہ کر سکتی ہے۔
اس انکوائری کے ذریعہ صرف جہانگیر ترین نہیں بلکہ شریف خاندان اور پیپلز پارٹی سے متعلقہ شخصیات کے علاوہ چوہدری برادران تک بھی پہنچا جا سکتا ہے۔
آنے والا دور نیب کا نہیں ایف آئی اے کا ہے لیکن اصل فیصلے ایف آئی اے کو نہیں عدالتوں کو کرنا ہیں اور ایف آئی اے کا اصل امتحان بھی تب شروع ہو گا جب وہ اپنی انکوائریوں کو عدالتوں میں سچا ثابت کر پائے گی۔
کم از کم اصغر خان کیس میں تو ایف آئی اے ناکام ہو چکی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ایف آئی اے بھی نیب کی طرح ٹارزن بن جائے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔