بلاگ
Time 14 مئی ، 2020

محمد بن قاسم کا المیہ

 ریاض نائیکو کی مخبری داعش نے کی جسے پچھلے سال بھارتی خفیہ اداروں نے قائم کیا ہے—فوٹو فائل

اس ایک شخص کے لہجے میں کئی سو سال کا درد سمٹا ہوا تھا۔ اس کا ایک ایک لفظ درد میں ڈوبا ہوا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اپنا نہیں بلکہ میرا درد بیان کر رہا ہے اور میں فون کان سے لگائے خاموشی سے اس بزرگ کی باتیں سن رہا تھا جو محمد بن قاسم کا استاد تھا۔

بزرگ نے کہا کہ محمد بن قاسم نے راجہ داہر کو شکست دی اور آپ کا ہیرو بن گیا لیکن اس ہیرو کی موت کسی ہندو کے ہاتھوں نہیں ہوئی بلکہ مسلمانوں کے ہاتھوں ہوئی اور آج بھی مسلمانوں کو اصل خطرہ غیرمسلموں سے کم اور مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ یہ جملہ سن کر بزرگ خاموش ہو گئے۔ میں بھی خاموش تھا اور اس ایک جملے کے پیچھے موجود کہانی کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

یہ بزرگ 6مئی 2020کو مقبوضہ کشمیر کے علاقہ پلوامہ میں شہید ہونے والے حزب المجاہدین کے کمانڈر ریاض نائیکو کے استاد تھے۔ ریاض نائیکو کا جہادی نام محمد بن قاسم تھا اور اس محمد بن قاسم کا استاد مجھے یہی بتا رہا تھا کہ اس کے شاگرد کی موت کسی راجہ داہر کی وجہ سے نہیں بلکہ ان مسلمانوں کی وجہ سے ہوئی جو خلافتِ اسلامیہ قائم کرنے کے دعویدار ہیں لیکن حقیقت میں بھارتی خفیہ اداروں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔

پھر بزرگ نے دوبارہ بولنا شروع کیا اور کہا کہ حزب المجاہدین نے ریاض نائیکو کی جگہ سیف اللہ میر کو نیا کمانڈر بنا دیا ہے اور بھارتی خفیہ اداروں کے ایجنٹوں نے سیف اللہ میر کو میر جعفر قرار دینا شروع کر دیا ہے کیونکہ سیف اللہ میر نے بھی ریاض نائیکو کی طرح خلافتِ اسلامیہ کی حمایت سے گریز کیا ہے کیونکہ خلافت کا نعرہ لگانے والوں نے آزادیٔ کشمیر کے متوالوں کو متحد کرنے کے بجائے انہیں آپس میں لڑانے کے اسباب پیدا کیے ہیں۔

یہ بزرگ بتا رہے تھے کہ وہ پلوامہ کے ایک اسکول میں ریاض نائیکو کو ریاضی پڑھاتے تھے اور پھر ریاض نائیکو بھی ریاضی کا استاد بن گیا۔ وہ ریاضی میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتا تھا لیکن مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج کے ظلم و ستم نے ریاض نائیکو کو محمد بن قاسم بنا دیا۔

دو سال قبل اس بزرگ کا پوتا بھی ریاض نائیکو سے جا ملا جس کے بعد بھارتی خفیہ اداروں نے اس بزرگ کے پورے خاندان کو اتنا تنگ کیا کہ بزرگ اپنے ایک جاننے والے خواجہ ظفر نائیک کی مدد سے کشمیر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔

اس بزرگ سے میرا تعارف خواجہ ظفر نائیک کے ذریعہ ہوا تھا۔ ان بزرگ کا کچھ خاندان ابھی پلوامہ میں ہے لہٰذا میں ان کا نام نہیں لکھ رہا۔ وہ چاہتے تھے کہ میں ان کا یہ پیغام نوجوانوں تک پہنچا دوں کہ خلافتِ اسلامیہ کے نام پر شام سے افغانستان تک بم دھماکوں میں معصوم بچوں اور عورتوں کو مارنا اور ظالموں سے برسر پیکار مجاہدین کو بدنام کرنا اسلام کی خدمت نہیں بلکہ اسلام کے پیرو کاروں کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔

مسلمان نوجوان محمد بن قاسم کو اپنا ہیرو ضرور بنائیں لیکن یاد رکھیں کہ محمد بن قاسم نے صرف ایک دفعہ راجہ داہر کو شکست نہیں دی تھی، اس نے تو بار بار کسی نہ کسی راجہ داہر کو شکست دی تھی اور وہ اکثر اوقات کسی سلیمان بن عبدالملک کے حکم پر کسی یزید بن ابوکبشہ کے ہاتھوں گرفتار ہوا اور مارا گیا۔ محمد بن قاسم کے بارے میں کچھ تاریخی غلط فہمیوں کا ازالہ ضروری ہے۔ جب انہوں نے سندھ پر حملہ کیا تو ان کی عمر سولہ یا اٹھارہ سال نہیں بلکہ اٹھائیس سال تھی۔

برصغیر میں وہ اسلام پھیلانے نہیں آئے تھے۔ ان کے یہاں آنے سے قبل اٹھہتر سال قبل مسلمان ناصرف برصغیر میں آچکے تھے بلکہ کئی علاقے فتح کر چکے تھے۔ محمد بن قاسم کو خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں حجاج بن یوسف نے راجہ داہر کی سرکوبی کے لیے بھیجا کیونکہ اس نے کچھ باغی مسلمانوں کو پناہ دے رکھی تھی۔ اسی زمانے میں سرندیپ (سری لنکا) مسلمانوں کا ایک قافلہ بحری کشتیوں میں عراق جا رہا تھا کہ اس قافلے کو سندھ کی ایک بندرگاہ دیبل کے قریب لوٹ لیا گیا۔

ایک عرب خاتون نے حجاج بن یوسف کو مدد کے لیے پکارا تو اس نے خلیفہ سے حملے کی اجازت طلب کی لیکن اجازت نہ ملی۔ کافی عرصہ بعد اس نے بحری قزافوں کے خلاف ایک مہم شروع کی جو کامیاب نہ ہوئی۔ اس دوران محمد بن قاسم کو فارس اور شیراز کا حاکم بنایا گیا جہاں انہوں نے کردوں کی بغاوت کو کچلا اور اس کے بعد انہیں سندھ پر حملے کی اجازت ملی۔

سندھ میں راجہ داہر کو شکست دینے کے بعد بہت سے مقامی ہندو محمد بن قاسم کی فوج میں شامل ہو گئے اور جب انہوں نے ملتان فتح کیا تو حجاج بن یوسف کا انتقال ہو گیا۔ کچھ ہی عرصے بعد ولید بن عبدالملک کا بھی انتقال ہو گیا اور جب سلیمان بن عبدالملک خلیفہ بنا تو بعض روایات کے مطابق راجہ داہر کی ایک بیٹی نے محمد بن قاسم پر جھوٹا الزام لگایا جس پر انہیں گرفتار کرکے عراق لانے کا حکم دیا گیا لیکن وہ ظلم و تشدد سے راستے میں ہی دم توڑ گئے اور جب ان کی لاش خلیفہ کے پاس پہنچی تو راجہ داہر کی بیٹی نے بتایا کہ اس نے جھوٹ بول کر محمد بن قاسم سے اپنے باپ کی شکست کا بدلہ لے لیا۔

محمد بن قاسم کا قصہ تمام کرنے کے بعد بزرگ نے مجھے کہا کہ جو کچھ سلیمان بن عبدالملک نے محمد بن قاسم کے ساتھ کیا، وہی ہندوستان کے بادشاہ اکبر نے کشمیر کے حکمران یوسف شاہ چک کے ساتھ کیا۔ اسے دھوکے سے گرفتار کرکے کشمیر پر قبضہ کر لیا اور پنجاب میں حضرت مجدد الف ثانیؒ کے پیروکار دُلا بھٹی کو پھانسی دے دی۔

کشمیریوں کو کبھی اکبر نے لوٹا، کبھی احمد شاہ ابدالی نے لوٹا، کبھی رنجیت سنگھ نے لوٹا۔ کشمیریوں کے لیے اکبر اور رنجیت سنگھ میں کوئی فرق نہیں، اس لئے کشمیر کے نوجوان محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں لیکن سلیمان بن عبدالملک جیسی خلافت قائم کرنے کے خواہشمند ان کشمیری نوجوانوں کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں۔

بزرگ نے کہا کہ مجھے کوئی شک نہیں ریاض نائیکو کی مخبری داعش نے کی جسے پچھلے سال بھارتی خفیہ اداروں نے قائم کیا ہے اور اب داعش والے سیف اللہ میر کو میر جعفر قرار دے رہے ہیں۔ ان بدبختوں کو یہ پتا نہیں کہ میر جعفر کا کشمیر کے میروں سے کوئی تعلق نہیں تھا، وہ نجف سے آنے والا سید تھا۔

اس کا نام سید جعفر علی خان نجفی تھا۔ میر تو اس کا ٹائٹل تھا کیونکہ وہ میرِ سپاہ یعنی آرمی چیف تھا جبکہ کشمیر کے میر یا تو میر سید علی ہمدانی ؒ کی نسل سے ہیں یا وسط ایشیا سے آنے والے صوفیاء کے ساتھی۔ افسوس کہ آج بھارتی خفیہ اداروں کے ایجنٹ حزب المجاہدین کے نئے کمانڈر سیف اللہ میر کو میر جعفر کی اولاد قرار دے رہے ہیں جس کا کشمیر سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔

بزرگ کی بات محمد بن قاسم کے المیے سے شروع ہوئی اور میر جعفر کے کردار پر ختم ہورہی تھی۔ میر جعفر اور میر صادق دراصل ہندوستان میں نہیں بلکہ عراق میں پیدا ہوئے تھے کیونکہ انہوں نے سلیمان بن عبدالملک بن کر محمد بن قاسم کو قتل کیا اور آج کے ہر محمد بن قاسم کو بھی راجہ داہر سے نہیں بلکہ میر جعفر جیسے مسلمانوں سے خطرہ ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔