میر شکیل الرحمٰن کے قومی ’’جرائم‘‘ کی گواہی

گزشتہ ’’آئینِ نو‘‘ میں میر شکیل الرحمٰن کے ایک قومی ’’جرم‘‘ کی وہ داستان ریکارڈ کی تھی کہ کس طرح حکومت وقت (1998)نے ’’دی نیوز‘‘ میں ایک بڑے حکومتی کرپشن اسکینڈل کی باثبوت و باتصویر خبر کی اشاعت رکوانے میں ناکامی پر مشتعل ہو کر بذریعہ چیئرمین نیب، روزنامہ جنگ کو بند کرنے کی جو مہم جوئی کی اس سے کس طرح میر شکیل الرحمٰن کی وہ انقلابی ایجنڈا سیٹنگ کی منصوبہ بندی سبوتاژ ہوئی جو انہوں نے میری مشاورت سے میڈیا کے مجموعی ایجنڈے میں پاکستان کے پاور فل سیکشنز آف سوسائٹی کے غلبے میں پبلک افیئرز کی رپورٹنگ کی مناسب جگہ بنانے اور اسے بتدریج بڑھانے کے لئے کی تھی اور جس پر عملدرآمد ہوا ہی چاہتا تھا کہ سیف الرحمٰن کا احتساب بیورو فقط جنگ کو بند کرنے کے لئے وقف ہو گیا۔

اشتہار مکمل بند، نیوز پرنٹ درآمد کرنے میں رکاوٹ، اسٹور ہوئے نیوز پرنٹ کے استعمال میں رکاوٹ، لاہور کی پیپرز مارکیٹ کے تاجروں کو جنگ کو نیوز پرنٹ فراہم نہ کرنے کے احکامات اور دھمکیاں، سیف الرحمٰن کو صحافی احتساب الرحمٰن کہہ رہے تھے اور میر شکیل الرحمٰن نے جو پوزیشن لی اس پر قائم رہے اور سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔

پبلک افیئرز کی رپورٹنگ اور ملکی میڈیا ایجنڈا میں اس کی مطلوب جگہ اور وقت ترقی پذیر دنیا کی بڑی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں تو ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کی مکمل اور سائنٹفک منصوبہ بندی اور عملدرآمد کی تیاری کے باوجود حکومتی مہم جوئی کے باعث یہ بیل منڈھے نہیں چڑھی، جس سے عوام الناس نے ثمربار ہونا تھا، لیکن آنے والے برسوں میں میڈیا اسکالرز کے اٹھائے گئے سوالات اور لئے گئے نوٹس کے نتیجے میں ’’رپورٹنگ پبلک افیئرز‘‘ ابلاغ عامہ کے بڑے موضوعات میں سے ایک بن گیا۔

ترقی یافتہ ممالک میں یہ میڈیا کے ایجنڈے میں جگہ بنانے لگی اور پھر ارتقا کی یہ صورت بنی کہ آج امریکا، کینیڈا، یورپی اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں ’’پبلک افیئرز جرنلزم‘‘ کے ماسٹر لیول تک ڈگری پروگرام شروع ہوئے ایک عشرے سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔

اگر روزنامہ جنگ کی منصوبہ بندی پر عملدرآمد ہو جاتا تو یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ وقت کا پرنٹ میڈیا اسے جلد سے جلد اختیار نہ کرتا اور دو تین سال بعد ہی ملک میں الیکٹرونک میڈیا کے چینلز کی جو بہار آنے والی تھی اس میں جنگ/ جیو گروپ کی تقلید میں پبلک افیئرز کی رپورٹنگ مجموعی ملکی ایجنڈے میں نمایاں ہوتی اور پیپل ایٹ لارج اس کے بینی فشری بنتے۔

اس کی پیروی بعد میں کیوں نہ ہو پائی، اس کی جملہ اور مدلل وجوہات ہیں، تاہم پھر بھی جنگ میں ہی اس کا محدود لیکن بہت بنیادی متبادل ’’جنگ ڈویلپمنٹ رپورٹنگ سیل‘‘ قائم ہوا جس میں جنگ کے امتیازی اور ریگولر فیچر کے طور پر سماجی ترقی کے شعبہ جات کی ہزارہا نیم تحقیقی رپورٹس شائع ہوئیں جس کی پیروی میں سوشل سیکٹر نے ملکی میڈیا میں مناسب جگہ حاصل کی، اگرچہ یہ اس کی پوری اسپرٹ سے اب بھی رپورٹ نہیں ہو رہا، یہ کیوں؟ اس کی جملہ وجوہات ہیں، لیکن اسٹیٹس کو میں یہ موضوعات کب قومی مباحث میں آتے ہیں۔

امر واقعہ تو یہ ہے کہ میر شکیل الرحمٰن میڈیا لیڈر، میڈیا لارڈ، میڈیا سیٹھ، کاروباری تو ہے ہی، وہ اس سے کبھی انکار بھی نہیں کرتے، ان کا اس پر ناز بہت بجا ہے، تاہم وہ سوسائٹی پر کم چوکس نہیں، گراس روٹ لیول پر ان کی نظر اور اسے میڈیا سے ہر دم کچھ نہ کچھ دینے، خوشی، تفریح، شعور، رویے میں تبدیلی، کاروبار اور تعلیم میں رہنمائی اور اس سے متعلق نئی سے نئی اور یقینی نتائج دینے والی کوریج ان کے سر پر سوار رہتی ہے اور وہ IDEATION (تصورات کو عملی شکل میں لانے) کے لئے پارے کی طرح حرکت میں رہنے والے میڈیا لیڈر اور لارڈ دونوں ہی ہیں۔

1998میں ہم نے پبلک افیئرز کی رپورٹنگ کی جو منصوبہ بندی کی تھی وہ بذریعہ نیب چیئرمین، جنگ کو بند کرنے کی حکومتی مہم جوئی سے سبوتاژ، جنگ گروپ سے کہیں زیادہ ملکی میڈیا اور سب سے بڑھ کر عوام الناس کا بڑا نقصان ثابت ہوا۔ میں نے اس سارے منصوبے کا تھیم ’’رپورٹ اَن رپورٹیڈ ایریاز‘‘ بنایا تھا۔

یہ کوئی اپریل 2009کی بات ہے جب میر شکیل الرحمٰن ایک اور بڑے قومی ’’جرم‘‘ کے مرتکب ہوئے۔ میں میڈیا اسٹوڈنٹ ہونے کے ناتے، میڈیا مانیٹرنگ کا عادی تھا، عادی ہوں۔

میرا ایک بڑا سنجیدہ نوٹ یہ بنا کہ حکومت، بگٹی شدید اختلافات کے نتیجے میں جب نوبت اکبر بگٹی کی ہلاکت تک پہنچ گئی تو بیرونِ ممالک میں بیرونی طاقتوں سے جڑے مفرور بلوچ امرا اور افغانستان میں موجود ’’را‘‘ کے تیزی سے ہوتے منظم نیٹ ورک نے بلوچستان میں دہشت گردی شروع کرنے اور مسلسل بڑھانے کے لئے کابل اور قندھار کو اپنا محفوظ اڈا بنا لیا۔ پھر جو بلوچستان میں ہوا وہ ہم سب جانتے ہیں۔

میں نے جنگ کراچی کے ایک پروفیشل وزٹ میں شکیل صاحب کی توجہ دلائی کہ آپ کو یاد ہے نہ کہ ہم کس طرح اَن رپورٹیڈ ایریاز کی رپوٹنگ کو مکمل منصوبہ بندی کے باوجود آغاز ہی نہ کر سکے اور یہ منصوبہ سبوتاژ ہوا، میرا نوٹس ہے کہ پاکستان میں ملک کی ریڑھ کی ہڈی بلوچستان ملکی میڈیا میں تو مکمل اور جنگ میں بھی کافی حد تک اَن رپورٹیڈ ہو گیا ہے، یہ بہت خطرناک ہے۔ اس پر ہم کچھ کریں۔

شکیل صاحب کا رسپانس پُرجوش رہا۔ اسی وقت پلان بنا HOW TO REPORT BALOCHISTAN? اور پھر شکیل صاحب کس طرح ایک حساس ترین قومی موضوع پر کیسے قومی ’’جرم‘‘ کے مرتکب ہوئے، اس کی تفصیل آئندہ ہفتے کے آئین نو میں جاری رہےگی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔