بلاگ
Time 25 مارچ ، 2020

میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کیوں کیا گیا؟

میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کیوں کیا گیا؟—فوٹو فائل

جنگ، جیو گروپ کے ایڈیٹر ِان چیف میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کواکثر لوگ احتسابی قانونی چارہ جوئی کے بجائے میڈیا کی آزادی کے ایشو کے طور پر دیکھ رہے ہیں کیونکہ عام طور پر ملک کا سب سے بڑا میڈیا گروپ خصوصاً عرصہ سے زیر عتاب ہے۔اگر یہ عام حالات میں معمول کا احتسابی عمل ہو تا تو شاید اس سے اسی تناظر میں نمٹا جاتا لیکن یہ ذاتی بغض وعناد کا نتیجہ دکھائی دیتا ہے۔

 مخالفت وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے میر شکیل الرحمان کی ہے۔ جس طرح میر شکیل الرحمان کی حراست میں ان کی تصویر افشا کی گئی اس نے حکومت اور نیب دونوں کے لئے معاملات کو مشکل سے مشکل ترکردیا ہے۔ اپنے اختلافات کے باوجود پی ایف یو جے کی جانب سے حکومت نے جب بھی پریس کو جکڑنے کی کوشش کی، مالکان اور ایڈیٹرز کی تنظیموں سے اظہار یکجہتی کی۔

اکثر میڈیا کی آزادی پر حملے سے نمٹنے کے لئے مشترکہ ایکشن کمیٹی تشکیل دی گئی۔ ایڈیٹر ان چیف جنگ، جیو کی گرفتاری کے بعد وزیر اعظم کی مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کی پریس کانفرنس کے چند منٹ بعد ہی جیو کی نشریات میں خلل ڈالا گیا۔ اپنی پریس کانفرنس میں انہوں نے جہاں اپنی حکومت کو گرفتاری کے عمل سے دور رکھنے کی کوشش کی وہیں جنگ اور جیو پر حکومت سے متعصبانہ رویہ اختیار کر نے کا الزام بھی عائد کیا۔ مذکورہ اقدامات حکومت پر نکتہ چیں ہونے کی وجہ سے جنگ ،جیو اور ڈان کے سرکاری اشتہارات بند کرنے کے چند ماہ بعد اٹھائے گئے۔ 

یہ حکمت عملی ملک میں تقریباً تمام حکومتوں نے اختیار کی تاکہ مخالفت میں اٹھنے والی آوازکو دبایا جاسکے۔ اقتدار میں آنے سے قبل بھی جنگ، جیو گروپ تحریک انصاف کے ریڈار پر رہا۔ 2014میں موجودہ حکمراں جماعت کے 124 روزہ دھرنے کے دوران بھی جنگ، جیو اور اس کے خواتین عملے کو پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں ہراساں کیاجا تا رہا۔یہ سب کے علم میں ہے کہ حکومت میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کے لئے موقع کی تلاش میں تھی۔لیکن اس بات نے اکثر کو حیران کر دیا کہ مبینہ غیر ملکی فنڈنگ کا ثبوت ہو نے کے دعوے کے باوجود انہیں اراضی سے متعلق34 سالہ پرانے مقدمے میں گرفتارکیا گیا۔

میرشکیل الرحمان سے صرف حکومت ہی نا خوش نہیں بلکہ نیب کے اعلیٰ حکام نے بھی جیو کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ پروگرام میں نیب کی بیس ماہ کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے تو اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔

حکومت نے میڈیا کو قابو کرنے کے لئے متعدد اقدامات کئے۔پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی تشکیل دینے کی تجویز سامنے لائی گئی۔ جس کی تمام میڈیا اسٹیک ہولڈرز نے مخالفت کی،PECA-2016 کا ایف آئی اے کے ذریعہ صحافیوں اور سوشل میڈیا کے خلاف غلط استعمال ہو ا۔ مقدمات درج ہوئے،گرفتاریاں ہوئیں جس نے خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا۔ جنگ اور جیو کے صحافیوں کو کئی بار مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔صحافی حامد میر کو چھہ گولیاں ماری گئیں۔ جیو کی نشریات چھہ ماہ معطل رہیں ایف آئی اے درج مقدمات کے حق میں ثبوت پیش نہ کرسکی۔ 

اس کے بعد حکومت نے نئے ریگولیشنز کے ذریعے سوشل میڈیا کو قابو میں لینے کی کوشش کی۔ دبائو کے اس حربے کی خود پی ٹی آئی کے کچھ رہنمائوں نے تک مخالفت کی ۔دنیا کے شدید ردعمل اور مخالفت کو دیکھتے ہوئے حکومت نے یہ منصوبہ ترک کردیا۔ پیمرا کی وزارت اطلاعات کوسفارشات کے تحت حکومت نے میڈیا عدالتیں قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ارادہ یہ تھا کہ پیمرا کی جانب سے نشریات کو منقطع کرنے کے نوٹسوں پر عدالتی کارروائی کے امکانات کا تدارک ہو جائے۔

جیو کی نشریات کئی ماہ تک منقطع رہیں اور بعد ازاں اسے پچھلے نمبروں پر دھکیل دیا گیا۔1990کی دہائی کی ابتدامیں جنگ کو ایم کیو ایم کے بدترین حملوں کا نشانہ بننا پڑا۔ دو ہفتوں کے لئے اس کی اشاعت روک دی گئی۔ ایک وقت پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس کے طلبا وینگ نے بھی جنگ کراچی کے دفتر پر حملہ کیا۔ سندھ حکومت نے ڈیلی نیوز اور عوام سمیت شام کے چھہ اخبارات پر پابندی لگائی۔ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں میر شکیل الرحمان پر چند صحافیوں کو برطرف کر نے کے لئے دباؤ ڈالا گیا۔

2007میں فوجی حکمراں پرویز مشرف نے ایمرجنسی کے تحت نہ صرف اینکرز اور چینلز بلکہ اسپورٹس چینل جیو سوپر پر بھی پابندی عائد کی۔یہ میر شکیل الرحمان ہی تھے جنہوں نے دیگر کے برخلاف کوئی تحریری ضمانت دینے سے انکار کیا جب کہ کئی اخبارات کے مالکان نےدستخط کرکے اپنی اشاعت بحال کرالی۔ 

ڈان کے سابق مدیر احمد علی خان مرحوم نے ایک بار کہا تھا کہ صحافت پیشہ اور کاروبار دونوں ہے۔گو کہ آزادی سے قبل کاروبار اتنی اہمیت حاصل نہیں ہو تی جنوبی ایشیا میں صحافت کاروبار سے پہلے پیشہ ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ ہم پیشہ وارانہ صحافت اور صحافت کے کاروبار کے تقاضوں میں ٹکراؤ کو بھی مدنظررکھیں۔ یہ قانونی ضروریات اور دیگر اہم امور کو سمجھتے ہوئے ساتھ ساتھ چلنا چاہئے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔