16 مئی ، 2020
کورونا نے دنیا بدل کے رکھ دی۔ کوئی ملک اور زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں، جسے کسی نہ کسی شکل میں اس وبا نے متاثر نہ کیا ہو۔ پاکستان میں بھی اس نے ہر فرد اور ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔
جوں جوں اس وبا کا دورانیہ بڑھتا جا رہا ہے، توں توں فرد اور معاشرے پر اس کے منفی اثرات بھی گہرے ہوتے جا رہے ہیں لیکن واحد طبقہ جس کو بظاہر اس وبا نے وقتی طور پر فائدہ پہنچایا ہے، وہ ہمارا حکمران طبقہ ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس سے متعلق وہ سنجیدگی نہیں دکھا رہا جو باقی دنیا نے دکھائی۔
مثلاً ہماری حکومت کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اس کی معاشی پالیسیاں جس بری طرح ناکام ہو کر معاشی تباہی لے آئی تھیں، اس تباہی کو کورونا کا لحاف مل گیا ہے۔ اسی طرح حکومت کے خلاف نفرت کی ایک فضا جنم لے رہی تھی، جس کو وقتی طور پر کورونا نے روک دیا۔
حکومت مطمئن ہے کہ جب تک کورونا ہے، حکومت کے خلاف اپوزیشن یا کسی اور جانب سے کوئی مہم جوئی نہیں ہو سکتی۔ موجودہ حکومت خارجہ محاذ پر بھی بری طرح ناکام ثابت ہوئی تھی۔ پاپولرازم اور افراط و تفریط پر مبنی خارجہ پالیسی کی وجہ سے چین، سعودی عرب، ترکی اور ایران وغیرہ کے ساتھ بھی تعلقات کشیدہ ہو گئے۔
چینی تو حیران اور پریشان ہیں۔ ان سب حوالوں سے حکومت کا محاسبہ ہونا تھا اور کشمیر نے تو اس کے گلے کا طوق بننا تھا لیکن کورونا کی وجہ سے سیاست اور صحافت سے یہ موضوعات غائب ہو گئے۔ قوم نے بجا طور پر محمد بن قاسم سے پوچھنا تھا کہ مودی کی بدمعاشی کے جواب میں انہوں نے حربی اور سفارتی محاذ پر کیا تیر مار لئے اور اب کشمیریوں کو بتانے کیلئے اس حکومت کے پاس کیا بیانیہ ہے لیکن کورونا کی وجہ سے وقتی طور پر حکمران اس محاسبے سے بھی بچ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ باقی ملک میں جاری آہ و فغاں کی کیفیت کے بجائے اقتدار کے ایوانوں میں سکون اور اطمینان نظر آتا ہے۔
جونہی کورونا کا مسئلہ قابو میں آئے گا (اللہ کرے جلد از جلد ایسا ہو) تو خود کشمیریوں اور ان سے محبت رکھنے والے پاکستانیوں نے یہ سوال پوری شدت کے ساتھ اٹھانا ہے کہ جب مودی سرکار یکطرفہ طور پر یہ سب کچھ کر رہی تھی تو ہماری حکومت کس میدان میں کس طرح جواب دے رہی تھی جبکہ دوسری طرف مغربی سرحد کی صورتحال بھی تسلی بخش نہیں۔
پختون پٹی میں نئے بحران جنم لے رہے ہیں تو افغانستان میں بھی امن کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ کورونا سے قبل امریکہ اور طالبان کی ڈیل کی وجہ سے پاکستان میں جشن منائے جا رہے تھے کہ جیسے راتوں رات افغانستان میں امن بھی آئے گا اور ہمارا اثر و رسوخ بھی بڑھ جائے گا لیکن وہاں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ایک نئی تباہی کا پیش خیمہ دکھائی دیتا ہے۔
ہم نے افغانستان کو بھلا تو دیا ہے اور ہمارے وزیر خارجہ اپنے کام پر توجہ دینے کے بجائے وزارتِ عظمیٰ کے خواب دیکھنے لگے ہیں لیکن افغانی ہمیں نہیں بھولے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ جیسا سوچا گیا تھا، افغانستان میں ویسا نہیں ہو رہا اور اگر وہ دوبارہ خانہ جنگی کی طرف گیا تو پاکستان بھی اس آگ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔
یہ طے پایا تھا کہ فروری میں ہونے والی طالبان اور امریکہ کی ڈیل کے فوراً بعد دس مارچ کو بین الافغان مذاکرات شروع ہوں گے لیکن مئی کا مہینہ آگیا ہے اور بین الافغان مذاکرات کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ گزشتہ روز کابل اور ننگرہار میں ہونے والی بدترین دہشت گردی کے بعد ڈاکٹر اشرف غنی نے افغان سیکورٹی فورسز کو بھی حکم دیا کہ وہ بھی کارروائیاں دوبارہ تیز کر دیں۔
اگرچہ طالبان نے کابل اور ننگرہار میں ہونے والی کارروائیوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے لیکن اگلے روز گردیز میں ہونے والے خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ ظاہر ہے جب تک طالبان افغان حکومت کے ساتھ جنگ بندی نہیں کرتے تو کیونکر اس طرح کی کارروائیوں کے لئے ان پر شک نہیں کیا جائے گا۔
یہ کون سی منطق ہے کہ بڑے شہروں میں بڑی کارروائیاں تو ہم نہیں کریں گے لیکن باقی ملک میں افغان حکومت کے خلاف جنگ جاری رہے گی بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کون سا جہاد ہے کہ جس میں امریکیوں کے خلاف تو حملے نہیں ہو رہے ہیں لیکن اپنے ہم کلمہ اور ہم نسل افغانوں کے ساتھ جنگ جاری ہے۔
دوسری طرف طالبان سے مذاکرات افغان حکومت نے کرنا ہیں لیکن ڈاکٹر اشرف غنی کے انتخاب کا تنازع ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔ اب جب افغان حکومت پر اتفاق نہیں ہے تو طالبان کے ساتھ مذاکراتی ٹیم کے لئے اتفاق رائے کیسے اور کون سامنے لائے گا؟
ادھر کورونا کی وجہ سے زلمے خلیل زاد کے سوا کوئی اعلیٰ امریکی عہدیدار افغانستان نہیں آ سکا۔ امریکہ نے طالبان کے ساتھ اپنی ڈیل کے لئے تو پورا زور لگایا اور ہر متعلقہ ملک اور کردار پر بھرپور دبائو ڈالا لیکن اب اس کی طرف سے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے انتخابی تنازعے کے خاتمے کے لئے کوئی خاص دلچسپی نظر آرہی اور نہ وہ طالبان پر افغان حکومت کے ساتھ جنگ بندی کے لئے کوئی خاص دبائو ڈال رہا ہے۔
دوسری طرف کورونا کی وجہ سے نہ صرف امریکی جلد از جلد اپنی افواج کا انخلا چاہتے ہوں گے بلکہ امریکی معیشت پر جو دبائو آیا ہے، اس کے بعد ہو سکتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو افغانستان میں اپنا خرچہ کم کرنے کی مزید جلدی پڑ جائے۔ یوں یہ خدشہ بڑھ رہا ہے کہ بین الافغان مفاہمت کے بغیر امریکی افغانستان کو اس کی حالت پر چھوڑ کر نکل جائیں یا پھر صرف اڈوں تک محدود ہو جائیں، ماضی کی طرح آدھے افغانستان پر طالبان دوبارہ قابض ہو جائیں اور ایک نئی خانہ جنگی اور نئی پراکسی وار کا آغاز ہو جائے۔
اندازہ کیجئے کہ خاکم بدہن جب ایک طرف افغانستان میں خانہ جنگی اور پراکسی وار کی نئی لہر آ جائے گی اور دوسری طرف ہماری پختون بیلٹ میں یہ بے چینی ہو گی تو پاکستان کی سلامتی کے لئے کتنے بھیانک چیلنجز کھڑے ہوں گے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔