پاکستان ہاکی کو بہتر کرنا سابق اولمپیئنز کے بس کی بات نہیں، سلمان اکبر

ہاکی فیڈریشن کے دفاتر میں بیٹھے لوگ اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے کسی نئے کو آگے آکر کام نہیں کرنے دیتے، سابق گول کیپر و کپتان ہاکی ٹیم— فوٹو: فائل

پاکستان ہاکی ٹیم کے سابق کپتان اور سابق گول کیپر سلمان اکبر کا کہنا ہے کہ پاکستان ہاکی کو بہتر کرنا 80 کے دہائی میں رہنے والے سابق اولمپیئنز کے بس کی بات نہیں، ہاکی فیڈریشن کے دفاتر میں بیٹھے لوگ اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے کسی نئے کو آگے آکر کام نہیں کرنے دیتے جس کی وجہ سے کھیل تباہ ہوچکا ہے۔

ہالینڈ سے جیو نیوز کو خصوصی انٹرویو میں سلمان اکبر نے کہا کہ ہاکی فیڈریشن کے دفاتر میں پروفیشل لوگ نہیں بیٹھے، ضروری نہیں کہ سابق ہاکی پلیئرز ہی ہاکی کو چلائیں، کارپوریٹ کلچرلایا جائے تاکہ ہاکی بہتر ہو، سابق اولمپیئنز کا احترام اپنی جگہ لیکن وہ بھی ہاکی کی تباہی کے ذمہ دار ہیں، ہر دور کے اولمپیئنز پی ایچ ایف میں آچکے لیکن ہاکی کو کوئی بہتر نہیں کرسکا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ہاکی کی بہتری کیلئے غیر ملکی کوچ ہی ضروری ہے کیوں کہ اس کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں ہوتا اور وہ عدم تحفظ کا شکار نہیں ہوتا، انہوں نے دو مرتبہ غیر ملکی کوچز کے ساتھ کام کیا اور دونوں کے ادوار میں ہاکی نے اچھا پرفارم کیا لیکن مقامی کوچز تو ٹاپ کی ٹیم کو 17 ویں پوزیشن پر لے آئے، یہی حالات رہے تو 17 سے 20 پر بھی آجائیں گے۔ 80 کی دہائی والے پلیئرز کے بس کی بات نہیں کیوں کہ ہاکی اب کافی بدل چکی ہے، گراؤنڈ کے 40 ،40 چکر لگوانا اب پرانی بات ہوگئی ہے۔

سابق ہاکی کپتان نے کہا کہ پاکستان ہاکی ماضی کی فتوحات کے سحر میں اس قدر مبتلا رہی کہ اس نے خود کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہی نہیں کیا اور یہ بھی پاکستان ہاکی کی تباہی کی ایک اہم وجہ ہے۔

2010 ایشین گیمز کے میڈلسٹ سلمان اکبر نے کہا کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کہتی ہے کہ وہ ہاکی لیگ کرائے گی، دو ہفتے یا تین ہفتے یا ایک مہینے کی لیگ بھی کرالیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر باقی سال پلیئرز نے فارغ رہنا ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسا سسٹم بنایا جائے جس سے ڈومیسٹک ہاکی میں پلیئرز سارا سال مصروف رہیں۔ صرف 14 اگست یا 6 ستمبر پر میچ کرانے سے پاکستان ہاکی اوپر نہیں چلی جائے گی۔

ایک سوا ل پر انہوں نے کہا کہ اگر آج بھی کام کرنا شروع کردیا تو 2032 میں جاکر کچھ امیدیں ہوں گی، فیڈریشن 2024 اولمپکس کی بات کرتی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا پی ایچ ایف کے پاس کھلاڑیوں کا پول ہے جو 2024 تک کھیلیں؟ اگر 2024 کیلئے کچھ کرنا ہے تو آج انڈر 16 پر کام کریں۔

ایک سوال پر سلمان اکبر کا کہنا تھا کہ سوشل ڈسٹنس کے ساتھ ہاکی کے میچز ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ ہاکی جیسے کھیل میں کھلاڑی کا ایک دوسرے کے قریب آنا ضروری ہے اور اگر ہاکی میں سوشل ڈسٹنس فالو کرنا ضروری ہوا تو پھراس سے کھیل کا مزہ خراب ہوجائے گا، یوں لگے گا کہ سب وڈیو گیم کھیل رہے ہیں۔

مزید خبریں :