بھارت کیا چاہتا ہے؟

فوٹو: فائل

کچھ تاریخی حقائق آپ کی خدمت میں پیش کر چکا ہوں۔ پسِ منظر کو سامنے رکھ کر بھارتی خفیہ ادارے نے کچھ منصوبے بنائے۔ منصوبہ سازی میں اجیت کمار دوول پیش پیش رہا۔ اگرچہ بیرونی منصوبہ بندی بتا چکا ہوں مگر آج اس کے کچھ نقائص بتانا چاہتا ہوں۔ پاکستان میں کھیل فلاپ ہو گیا بلکہ کلبھوشن یادیو پکڑا گیا، یہ را کی بڑی ناکامی تھی، حال ہی میں کراچی سے دو ایجنٹ بھی پکڑے گئے ہیں۔

را کا ایک آدمی جرمنی میں پکڑا گیا ہے، جہاں اسے سزا دے دی گئی ہے۔ بھارتی خفیہ ادارے را کا ایک بندہ کینیڈا میں بھی پکڑا گیا ہے، کینیڈا میں پکڑے جانیوالے نے بتا دیا ہے کہ وہ سکھوں اور کشمیریوں کی جاسوسی کرتا تھا۔ کینیڈین اراکین پارلیمنٹ کو پاکستان کیخلاف ورغلانا بھی اس کا مشن تھا۔ یورپ کے کئی ممالک میں را کے ایجنٹس جاسوسی کرتے ہیں، یہی کام کچھ لوگ امریکہ میں کرتے ہیں مگر اب ہر جگہ ان پر کڑی نگاہ رکھی جا رہی ہے۔

اجیت کمار دوول بھارتی وزیراعظم کو کئی سہانے سپنے دکھاتا تھا، اب وہ سارے ’’خوابی محل‘‘ ریت کا ڈھیر ثابت ہو رہے ہیں۔ انڈیا نے افغانستان میں بہت پیسہ بہایا مگر وہاں کھیل خراب ہو گیا ہے بلکہ کچھ خبریں ایسی بھی ہیں کہ عید کے بعد طالبان بھارت کے مدمقابل آ جائیں گے۔ افغانستان کے اندر بھی را کے بندوں کے لئے چھپنا مشکل ہو گیا ہے۔

افغانستان میں سرکاری فوجی طالبان کا حصہ بنتے جا رہے ہیں، چابہار بھی بھارت کیلئے بہاریں لانے میں ناکام رہا۔ افغانستان میں امریکہ نے بھارت کی مدد کرنے سے انکار کر دیا ہے، مشرق وسطیٰ میں بھی ہندوئوں کیلئے مشکلات ہی مشکلات ہیں۔

بھارتی اعداد و شمار کے مطابق سوا کروڑ سے زائد بھارتی مشرق وسطیٰ میں ہیں، انہیں اب مشکلات کا سامنا ہے۔ بھارت کیلئے خطے میں بھی مشکلات کا سفر ہے۔ نیپال جسے بھارت اپنی کالونی سمجھتا تھا، اب اسکی فوج بھارت کے سامنے کھڑی ہو گئی ہے۔ نیپال کی سرحدیں تین اطراف سے بھارت کے ساتھ ملتی ہیں۔

اس کے علاقے کالا پانی میں ایک سڑک کے معاملے پر بھارت کو اس وقت سبکی کا سامنا کرنا پڑا جب نیپالیوں نے بھارت کو نکل جانے کیلئے کہا۔ نیپال اور بھوٹان کے درمیان ایک چھوٹی سی بھارتی ریاست سکم ہے جہاں سے چینی افواج نے بھارتی فوج کو مار بھگایا۔

سکم کے ساتھ مغربی بنگال کی ایک پٹی ہے جو بنگلہ دیش، بھوٹان اور نیپال کی سرحدوں کو چھوتی ہے اگر اس گلی نما علاقے کو کاٹ دیا جائے تو بھارت کی سات ریاستیں الگ ہو جاتی ہیں۔ یہ سات ریاستیں سکم کے علاوہ ہیں۔ ان ریاستوں میں آسام، میزو رام، منی پور، ناگا لینڈ، تری پورہ، اروناچل پردیش اور میگھالیہ شامل ہیں۔

بھارتی خفیہ اداروں نے اپنے ملک کے اندر اقلیتوں کے خلاف منصوبہ بندی کی۔ دس سالوں میں دس لاکھ سکھ نوجوانوں کو مار کر سکھوں کی حوصلہ شکنی شروع کر دی گئی۔ 1984ءسے 1994ءتک دس سالہ مشکل حالات میں کھاتے پیتے سکھ نوجوان بیرونی دنیا میں جا بسے، زیادہ مغربی ممالک میں گئے، جو غریب رہ گئے انہیں منشیات کا عادی بنانے کی منڈیاں کھول دی گئیں۔ 1980ءسے پہلے سکھوں کے ساتھ یہ ظلم ہوا کہ بھارت سرکار نے پنجاب کو قریباً چار حصوں میں بانٹ دیا۔

ہریانہ، ہماچل پردیش اور دہلی کو صوبہ بنا دیا۔ فیروزپور کے بعد پنجاب کے علاقے کو راجستھان میں شامل کر دیا گیا۔ ہریانہ اور پنجاب کے مشترکہ دار الحکومت چندی گڑھ میں 80فیصد آبادی ہندوئوں کی ہے، یہاں سکھ صرف 13فیصد ہیں۔ بھارتی خفیہ اداروں نے مشرقی پنجاب کے سرحدی اضلاع میں ہندوئوں کی آبادی کو بڑھایا۔

امرتسر اور ترن تارن کے علاوہ پاکستانی سرحد سے ملحقہ تمام اضلاع میں ہندوئوں کی اکثریت ہے۔ بھارت کو جموں و کشمیر سے ملانے والے پنجاب کے ضلع پٹھان کوٹ میں 88فیصد ہندو ہیں۔ گورداسپور، فیروز پور اور فاضلکا میں بھی ہندوئوں کی اکثریت ہے۔ پاکستانی پنجاب کے اضلاع گجرات، سیالکوٹ اور نارووال کی سرحد جموں و کشمیر سے ملتی ہے۔

یہ 193کلو میٹر ورکنگ بائونڈری ہے یہاں سامبا، کٹھوعہ اور جموں اضلاع میں ہندوئوں کی اکثریت ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سات سو کلو میٹر لائن آف کنٹرول ہے۔ ایل او سی کے دونوں جانب مسلمان آباد ہیں۔ مقبوضہ وادیٔ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، اسی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کیلئے آئین کے آرٹیکل 370کا خاتمہ کیا گیا۔

پھر مسلمانوں کے حوالے سے شہریت کا قانون بھی منظور کر لیا گیا مگر یہ سب کام مودی کے گلے پڑے ہوئے ہیں۔ بھارت سرکار نے جان بوجھ کر چین سے ملحقہ ریاست ہماچل پردیش میں بھی ہندوئوں کی اکثریت کو آباد کیا۔ یہاں اب 85فیصد ہندو ہیں۔ چند روز پہلے سکم میں چینی فوج کے ہاتھوں بھارتی فوج کی پٹائی ہوئی۔

امریکا کا بھارت پر پریشر ہے کہ وہ چین سے جنگ کرے مگر چین کے ساتھ جنگ کی ہمت کون کرے۔ جب سے چین نے اپنے دفاعی نظام کو فائیو جی سے منسلک کیا ہے، بڑی طاقتیں بھی اس سے ڈر گئی ہیں۔ امریکی دفاعی ادارے نے چین کے ساتھ لڑنے سے انکار کر دیا ہے۔

بھارت دباؤ میں آ کر سی پیک کو خراب کرنا چاہتا ہے مگر اس چاہت میں کچھ باتیں رکاوٹ ہیں مثلاً بھارت میں سوا دو کروڑ سکھ ملکی آبادی کا دو فیصد سے بھی کم ہیں مگر بھارتی فوج کا 20فیصد سکھ افسران پر مشتمل ہے، بھارتی فضائیہ اور نیوی کے موجودہ سربراہوں کے نام راکیش سنگھ اور کرم بیر سنگھ ہیں۔

بھارتی فوج میں بہت سی اسامیاں خالی ہیں پھر اٹھارہ سے بیس ہزار فوجی کورونا کا شکار ہو گئے ہیں۔ ایسے میں مجبور بھارت کیا کرے۔ مظفر وارثی یاد آ گئے کہ ؎

آنکھوں میں جھانکنے کی ضرورت نہیں پڑی

چہروں کے خول آئینہ خانے لگے مجھے


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔