28 فروری ، 2020
دریائے جمنا کے کنارے دلّی تین دنوں سے جل رہا ہے۔ ہنگامے، فسادات، عمارتیں راکھ کا ڈھیر، گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں خاکستر، گاندھی اور نہرو کے سیکولر انڈیا کو بھون دیا گیا ہے۔ جلاؤ گھیراؤ کی اس کیفیت پر مودی سمیت بی جے پی کی اعلیٰ قیادت خوش ہے۔
خوشی کی دو وجوہات ہیں، ان پر بات کرنے سے پہلے دلّی کا حال سن لیجئے۔ دلّی ہزاروں برس سے دریائے جمنا کے کنارے ہے۔ دلّی نے کئی شہنشاہ، کئی بادشاہ دیکھے، یہ شہر سلاطین کا دارالحکومت رہا، کئی بار فتح ہوا، کئی بار اجڑا اور کئی بار بسایا گیا۔ غالب اور بہادر شاہ ظفر کی شاعری میں دلّی کے دکھ بولتے رہے۔
دلّی کے پاس آگرہ بھی پایۂ تخت رہا۔ 1639میں شاہ جہاں بادشاہ نے دلّی میں ایک نیا شہر بسایا جسے شاہ جہاں آباد کہا جانے لگا، اب یہ پرانی دلّی ہے۔ 1920میں انگریزوں نے قدیم شہر کے جنوب میں ایک نیا شہر نئی دہلی کے نام سے بسایا، اسی میں آج کل مرکزی حکومت کے دفاتر ہیں۔
دہلی 25ملین آبادی کا حامل، ممبئی کے بعد بھارت کا آبادی اور امارت کے لحاظ سے دوسرا بڑا شہر ہے۔ دلّی کے تین طرف تو ہریانہ، مشرق میں اتر پردیش یعنی یوپی ہے۔ دہلی انتظامی بنیادوں پر گیارہ اضلاع میں تقسیم ہے، ان اضلاع میں مرکزی دہلی، مشرقی دہلی، نئی دہلی، شمالی دہلی، شمال مشرقی دہلی، شمال مغربی دہلی، جنوبی دہلی، جنوب مغربی دہلی، مغربی دہلی، شاہدرہ دہلی اور جنوب مشرقی دہلی شامل ہیں۔ دلّی میں قدیم و جدید ثقافت کے رنگ نظر آتے ہیں، پرانی دلّی میں چاندنی چوک جیسا بازار تین صدیوں سے آباد ہے۔
تین دنوں سے دلّی شہر کو بدصورت بنا دیا گیا ہے، گلیوں میں موت اور آگ برس رہی ہے۔ دلّی پر سینکڑوں برس حکومت کرنے والے مسلمان آج اسی شہر میں چھپتے پھر رہے ہیں، پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ آج کے دلّی میں 81فیصد ہندو، تیرہ فیصد مسلمان اور سکھ ساڑھے تین فیصد ہیں۔ دلّی شہر کو سیاسی، ثقافتی، تاریخی اور سیاحتی حوالے سے مسلمانوں سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔
دلّی کے پانچ بڑے ریلوے اسٹیشنوں میں سے ایک کا نام حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے نام پر ہے۔ دلّی کی تیرہ مساجد مشہور ترین ہیں مگر مشہور ترین مندر آٹھ ہیں جب کہ چرچ چھ ہیں۔ اسلام آباد کی طرح دلّی میں بھی لال مسجد ہے۔ جب کوئی بیرونی دنیا سے دلّی جاتا ہے تو اسے جو 9مقامات دکھائے جاتے ہیں ان میں سے کم از کم چھ مسلمانوں سے جڑے ہوئے ہیں۔
مقبرئہ ہمایوں، قطب مینار، مسجد قوتِ اسلام ہندوستان، مزار صفدر جنگ، مغل باغات، لودھی باغ، لال قلعہ اور پرانا قلعہ۔ کوئی غالب کی قبر یا حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار پر چلا جائے تو یہ اُس کی مرضی۔
دلّی میں تین دن سے مسلم کش فسادات ہو رہے ہیں۔ فسادات کے لئے دلّی کو کیوں چنا گیا؟ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ بی جے پی کی حکومت مسلمانوں کو مارنا چاہتی ہے۔ بی جے پی کے رہنمائوں کو نہ کوئی ندامت ہے اور نہ ہی افسوس کہ دلّی میں کس قدر تباہی ہو گئی ہے۔
دوسری وجہ سیاسی ہے۔ بی جے پی کی کوشش ہے کیجریوال کو ناکام بنایا جائے۔ ریاستی اسمبلی کے حالیہ الیکشن میں 70میں سے کیجریوال کی عام آدمی پارٹی نے 62نشستیں حاصل کیں۔ ریاستی اسمبلی میں بی جے پی کو شرمناک شکست ہوئی۔ اس شکست کے بعد کئی میٹنگیں ہوئیں چونکہ بھارتی وزیر داخلہ امیت شا کو الیکشن مہم میں دو تین بار خفت کا سامنا کرنا پڑا تھا لہٰذا وہ سبق سکھانے پر تلے ہوئے تھے۔
مودی کی بھی یہی سوچ تھی، اجیت کمار دوول نے منصوبے کا رخ مخصوص علاقوں تک موڑا۔ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے پورے بھارت سے آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے کارکنوں کو بلایا گیا۔ ان کارکنوں نے سیکولر بھارت کے چہرے پر کالک مل دی۔ اس سلسلے میں بی جے پی رہنما کپل شرما نے اشتعال انگیز تقریریں بھی کیں۔ اس کا اعتراف دلّی سے لوک سبھا کے رکن، بی جے پی رہنما سابق کرکٹر گوتم گھمبیر کر چکے ہیں۔
دلّی کی ریاستی اسمبلی کے حالیہ الیکشن میں عام آدمی پارٹی کی طرف سے پانچ مسلمان کامیاب ہوئے تھے۔ بی جے پی کو یہ بھی غصہ تھا، اس لئے مسلمانوں کے علاقوں کو ٹارگٹ کیا گیا چونکہ دلّی پولیس وزیر اعلیٰ کے بجائے مرکزی وزیر داخلہ کے انڈر ہے، اسی لئے پولیس حملے کرنے والوں کی حامی بنی رہی۔ پولیس کے سامنے شمال مشرقی دہلی میں موج پور، جعفر آباد، بھجن پورہ، رسول نگر (اشوک نگر)، چاند باغ، برج پوری اور گوکولیوری سمیت ٹائر مارکیٹ کو وحشت کا نشانہ بنایا گیا۔
آج کے انڈیا میں ’’جناح‘‘ کا نظریہ جیت چکا ہے۔ جناحؒ کی بات نہ ماننے والے جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور خاکسار تحریک سمیت احراری رہنمائوں کو وقت نے غلط ثابت کیا ہے۔ آج کے بھارت میں کشمیر، ہریانہ، دلّی، اتر پردیش یا پنجاب ہی نہیں بلکہ کرناٹک سمیت کئی ریاستوں میں ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگ رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ بھارت کا بھیانک چہرہ ہے۔ ہندو ہر ایک کی وطن پرستی پر شک کرتے ہیں کہ بقول محسن نقوی
یہ شرطِ الفت بھی عجیب ہے محسنؔ
میں پورا اترتا ہوں وہ معیار بدل دیتے ہیں
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔