20 مئی ، 2020
امریکا اور طالبان کی ڈیل کی اچھی خبر کے بعد افغانستان سے مسلسل بری بلکہ بھیانک خبریں آ رہی تھیں۔ امریکا سے جنگ بندی کے باوجود طالبان افغان حکومت کے ساتھ جنگ بندی پر آمادہ نہیں ہو رہے تھے۔ بین الافغان مذاکرات کے لئے پیش رفت تو کیا ہوتی، الٹا صدارتی انتخاب متنازع بن گیا تھا۔ ایک طرف اشرف غنی نے بطورِ صدر حلف اٹھایا اور دوسری طرف عبداللہ عبداللہ نے اپنے آپ کو صدر ڈکلیئر کیا۔
کورونا کی وجہ سے امریکیوں کی دلچسپی بھی کم نظر آرہی تھی اور یہ خطرہ جنم لینے لگا تھا کہ طالبان کے ساتھ جنگ تو ایک طرف، کہیں کابل میں موجود سیاسی عناصر بھی ایک دوسرے سے جنگ کی طرف نہ چلے جائیں۔ گزشتہ ہفتے کابل کے اسپتال میں جس طرح گائنی وارڈ میں گھس کر، حاملہ مائوں یا پھر نومولود بچوں کو وحشت ناک طریقے سے نشانہ بنایا گیا، اس کے بعد ڈاکٹر اشرف غنی نے بھی طالبان کے خلاف آپریشن تیز کرنے کا حکم دیا۔
اس پس منظر کو ذہن میں رکھ کر گزشتہ کالم میں اس طالب علم نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ کہیں افغانستان ایک نئی اور تباہ کن خانہ جنگی کی طرف نہ چلا جائے لیکن گزشتہ روز ڈاکٹر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے معاہدے کی خوشگوار اور کرشمانہ پیشرفت نے ایک بار پھر امید کی شمعیں روشن کر دیں۔
ڈاکٹر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کا معاہدہ پائیدار ثابت ہوتا ہے یا نہیں اور مطلوبہ نتائج دیتا ہے یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن سر دست دونوں کا یہ اتفاق ایک خوشگوار کرشمے سے کم نہیں، جس میں سابق افغان صدر حامد کرزئی نے بنیادی کردار ادا کیا۔ میں اسے خوشگوار کرشمے سے اس لیے تعبیر کر رہا ہوں کہ پچھلی مرتبہ ڈاکٹر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی ڈیل امریکا نے ڈنڈے کے زور پر کروائی تھی لیکن اب کی بار جو کچھ ہوا، وہ افغانوں نے خود کیا۔
حامد کرزئی نے یہ عقلمندی دکھائی تھی کہ انہوں نے گزشتہ صدارتی انتخابات کے معاملے سے اپنے آپ کو باہر رکھا تھا۔ تب ان کی رائے یہ تھی کہ صدارتی انتخابات کے بجائے اولیت طالبان کے ساتھ بین الافغان مفاہمت کو دینی چاہیے لیکن ڈاکٹر اشرف غنی انتخابات پر مصر تھے جس کے نتائج متنازع ہوگئے۔
اب پہلے تو امریکا کا انتظار کیا جا رہا تھا کہ وہ ڈاکٹر اشرف غنی اور مخالف صدارتی امیدواروں کے تنازعے کو حل کرائے گا لیکن جب یہ محسوس کیا گیا کہ امریکی زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے اور ملک مزید انتشار کی طرف جا رہا ہے تو حامد کرزئی نے اپنے ساتھ استاد سیاف اور دیگر بااثر افراد کو لے کر خود ثالثی شروع کر دی اور گزشتہ روز دونوں کے مابین باقاعدہ معاہدہ کرانے میں کامیاب ہوگئے۔
معاہدے کی رو سے پچاس فیصد وزارتیں عبداللہ عبداللہ کے گروپ کودی جائیں گی لیکن اس سے زیادہ اہم شق یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل اب صرف حکومت کے ہاتھ میں نہیں رہا بلکہ بڑی حد تک وہ عبداللہ عبداللہ کے ہاتھ میں چلا گیا ہے جس میں حامد کرزئی کا رول بھی اہم ہوگا۔ معاہدے کی رو سے ایک ہائی کونسل آف گورنمنٹ تشکیل دی جائے گی جو قومی سطح کی اہم سیاسی شخصیات پر مشتمل ہوگی، جنہیں حکومتی عہدیداروں کی طرح سیکورٹی اور پروٹوکول ملے گا جبکہ یہ کونسل اہم قومی امور میں صدر کو مشاورت فراہم کرے گی۔
اس سے اہم ترین فورم قومی مصالحت کے لئے (بالفاظ دیگر طالبان کے ساتھ مفاہمت کیلئے) ہائی پیس کونسل ہے جس کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ ہوں گے۔ ان کے پانچ معاونین یا ڈپٹی ہوں گے۔ اس کے ممبران میں اراکین پارلیمنٹ، مختلف اہم سیاسی شخصیات، مختلف قومیتوں کے رہنما اور سول سوسائٹی کے نمائندے شامل ہوں گے۔ طالبان یا کسی اور حکومت مخالف دھڑے کے ساتھ مفاہمت کے سارے معاملات اس کونسل کی ذمہ داری ہوگی جبکہ اسے مالی خودمختاری بھی حاصل ہوگی۔
اس کے تحت قومی مصالحت کی وزارت بھی قائم ہوگی جبکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے ٹیم کا انتخاب کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی رہنمائی بھی اس کونسل کی ذمہ داری ہوگی۔ علاوہ ازیں اس معاہدے میں انتخابی اصلاحات اور آئین میں ترامیم لانے کی بات بھی کی گئی ہے۔
غور سے دیکھا جائے تو کئی حوالوں سے اب کی بار افغانستان کا حکومتی انتظام گزشتہ پانچ سالہ ٹرم کی نسبت زیادہ قابل وقعت بن گیا ہے۔ پچھلی مرتبہ جو کچھ ہوا تھا وہ امریکی وزیر خارجہ نے دبائو ڈال کر کرایا تھا اور عبداللہ عبداللہ کو چیف ایگزیکٹیو کا ایسا عہدہ دلایا گیا تھا جو آئین میں موجود ہی نہیں تھا۔
اب کی بار جو کچھ ہوا، وہ خود افغانوں نے مل بیٹھ کر طے کیا جبکہ ڈاکٹر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی ذمہ داریوں کا بھی الگ الگ تعین ہوگیا ہے۔ اسی طرح جو ہائی کونسل آف گورنمنٹ بنے گی، اس میں کم و بیش سب اہم قومی لیڈروں کو نمائندگی مل جائے گی اور گزشتہ حکومت اگر دو دھڑوں کی مشترکہ حکومت تھی تو یہ حکومت اس کی نسبت زیادہ وسیع البنیاد بن جائے گی۔ بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ چونکہ عبداللہ عبداللہ شمال کی نمائندگی کرتے ہیں اور طالبان کا ان کے ساتھ ماضی تلخ رہا ہے اس لئے ان کی سرکردگی میں مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے لیکن میرے تجزیے کے مطابق معاملہ الٹ ہے۔
شمالی افغانستان کی طاقتوں کی طالبان کے ساتھ ڈیل اس لئے نسبتاً آسان ہے کہ ان کو ہرصورت میں اپنا حصہ ملنا ہی ہے جبکہ طالبان نے ان پختون رہنمائوں کی جگہ لینی ہے جو اس وقت حکومت کا حصہ ہیں۔
اسی طرح عبداللہ عبداللہ کی ہائی پیس کونسل میں حامد کرزئی کی حیثیت کلیدی ہوگی جن کے ساتھ ماضی میں بھی طالبان بیٹھ چکے ہیں اور اب بھی اشرف غنی کی نسبت حامد کرزئی کے بارے میں طالبان کا رویہ کافی مثبت ہے۔
طالبان کے ساتھ مفاہمت کی صورت میں لامحالہ آئین میں ترمیم کرنا ہوگی اور اگر افغانستان کے صدر خود مذاکرات کر رہے ہوں تو بہت مشکل ہے کہ وہ آئین میں ایسی ترمیم پر آمادہ ہو جائیں جس میں کسی وقت ان کو بھی اپنی جگہ چھوڑنی پڑے لیکن اب جب یہ اختیار ایک بااختیار اور سب کے نمائندوں پر مشتمل ہائی پیس کونسل کے ہاتھ میں آگیا ہے تو وہ کسی اسٹیج پر طالبان کے ساتھ مفاہمت کے لئے ایسا راستہ بھی نکال سکتی ہے جس میں صدر یا کسی اور عہدیدار کو عہدہ چھوڑنا پڑ جائے یا پھر وہ آئین میں تبدیلی کرکے حکومتی نظام میں بڑی تبدیلی لے آئے کہ جس کے نتیجے میں طالبان بھی راضی ہو جائیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔