24 مئی ، 2020
کابل: افغان طالبان نے عید کے دنوں میں سیز فائر کا اعلان کردیا جس کا صدر اشرف غنی نے خیر مقدم کیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان کی جانب سے سیز فائر کے اعلان پر عملدرآمد آج عید کے پہلے روز سے ہوگا جو طالبان کی جانب سے حالیہ ہفتوں میں حملوں میں تیزی کے بعد سامنے آیا ہے۔
بی بی سی کے مطابق افغان طالبان نے عید کے تین روز کے لیے سیز فائر کا اعلان کیا ہے جس سے ملک میں جاری تشدد کی لہر میں کچھ کمی کی امید ہے۔
طالبان کی جانب سے گزشتہ سال بھی عید کے موقع پر سیز فائر کا اعلان کیا گیا تھا جسے عید کے بعد توسیع نہیں دی گئی تھی۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سیز فائر کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں کہیں بھی دشمنوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے اور اگر دشمن کی جانب سے آپ پر کوئی حملہ کیا جائے تو بھرپور دفاع کریں۔
طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ سیز فائر کا اعلان صرف عید کے لیے کیا گیا ہے۔
دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کے سیز فائر کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے طالبان قیدیوں کی رہائی کے عمل میں تیزی لانے کا عندیہ دیا ہے۔
عید کے موقع پر جاری پیغام میں اشرف غنی کا کہنا تھا کہ وہ طالبان کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں اور طالبان قیدیوں کی رہائی میں تیزی لائی جائے گی جس سے ایک ماہ سے تعطل کا شکار انٹر افغان مذاکرات کا آغاز ہوگا۔
افغان صدر نے کہا کہ ایک ذمہ دار حکومت کے طور پر ہم ایک قدم مزید آگے بڑھنا چاہتے ہیں، اس لیے اعلان کررہا ہوں کہ طالبان قیدیوں کی رہائی کا عمل تیز کیا جائے گا اور ہم طالبان سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بھی سیکیورٹی اہلکاروں اور دیگر قیدیوں کی رہائی تیز کریں۔
اشرف غنی کا کہنا تھا کہ امن عمل کی کوششوں کو تعاون کی ضرورت ہے اور اس معاملے میں ذمہ داری کو بانٹنا چاہیے۔
انہوں نے ایک بار پھر طالبان کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے افغان فورسز کو بھی سیز فائر پر عملدرآمد کی ہدایت کی۔
اشرف غنی نے مزید کہا کہ جنگ صرف بربادی اور تباہی لاتی ہے اور خاص طور پر افغان خواتین اس سے بہت متاثر ہوئی ہیں لہٰذا امن کے فاتح افغان عوام ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ مذاکراتی ٹیم جتنی جلدی ممکن ہوسکے انٹر افغان مذاکرات کے آغاز کے لیے تیار ہے۔
واضح رہے کہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ 29 فروری کو دوحہ میں طے پایا جس کے تحت 5 ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کےبدلے طالبان کو ایک ہزار قیدی رہا کرنے ہیں لیکن افغان صدر کی جانب سے 5 ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی سے انکار کے بعد طالبان نے انٹراافغان مذاکرات سے انکار کردیا ہے۔
طالبان نے کابل سے دوحہ بھیجے جانے والے 6 رکنی وفد سے ملاقات بھی نہیں کی اور کہا ملاقات صرف قیدیوں کی رہائی سے متعلق بااختیار افراد سے ہی کی جائے گی۔
معاہدے کے تحت افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا آئندہ 14 ماہ کے دوران ہوگا جب کہ اس کے جواب میں طالبان کو ضمانت دینی ہے کہ افغان سرزمین القاعدہ سمیت دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال نہیں آنے دیں گے۔
معاہدے کا اطلاق فوری طور پر ہوگا، 14 ماہ میں تمام امریکی اور نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلاء ہوگا، ابتدائی 135 روز میں امریکا افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد 8600 تک کم کرے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اتحادی افواج کی تعداد بھی اسی تناسب سے کم کی جائے گی۔
معاہدے کے تحت قیدیوں کا تبادلہ بھی کیا جائے گا۔ طالبان کے 5 ہزار قیدی اور افغان سیکیورٹی فورسز کے ایک ہزار اہلکاروں کو رہا کیا جائے گا اور اس کے فوراً بعد افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہوں گے۔
معاہدے کے مطابق امریکا طالبان پر عائد پابندیاں ختم کرے گا اور اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان رہنماؤں پر عائد پابندیاں ختم کرنے پر زور دے گا۔
معاہدے کے تحت افغان طالبان اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ افغان سرزمین امریکا اور اس کے اتحادیوں کیخلاف استعمال نہ ہو۔