طیارہ حادثے کی انکوائری رپورٹ عوام اور پارلیمنٹ کے سامنے پیش کی جائے گی، غلام سرور

راولپنڈی : کراچی میں پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے میں جاں بحق ہونے والے 2 بھائیوں کی نماز جنازہ راولپنڈی میں ادا کردی گئی۔

نماز جنازہ میں وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے بھی شرکت کی اور بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں طیارہ حادثے میں 97 افراد جاں بحق ہوئے جن کا غم پوری قوم کو ہے، پوری قوم اس غم میں برابر کی شریک ہے۔

غلام سرور خان نے بتایا کہ طیارہ کریش کی انکوائری کیلئے فرانس اور جرمن حکام کراچی پہنچ چکے ہیں، دونوں بھائیوں کیلئے ایک ملین کا اعلان کیا ہے لیکن پیسے سے ازالہ نہیں ہوسکتا۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر افواہیں نہ پھیلائیں اور انویسٹی گیشن کا انتظار کریں، وعدہ کرتا ہوں اس کیس کی انکوائری ہوگی، عوام اور پارلیمنٹ کے سامنے رپورٹ پیش کی جائے گی، انکوائری مکمل ہونے کا ٹائم نہیں دے سکتا لیکن کم سے کم وقت میں رپورٹ آئے گی اور میں خود اعلان کروں گا۔

غلام سرور نے کہا کہ جو اس واقعہ میں ذمہ دار ہیں ان کو منطقی انجام تک پہنچانا میری ذمہ داری ہے۔

خیال رہے کہ 22 مئی کو قومی ائیرلائن پی آئی اے کی پرواز کو پیش آنے والے حادثے کے نتیجے میں 97 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جب کہ صرف 2 مسافر معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کریش لینڈنگ سے رن وے پر کافی چنگاریاں بھی اٹھیں، ذرائع کے مطابق ممکن ہے کہ رن وے پر لینڈنگ کی کوشش کے دوران ہی جہاز کے انجن کو نقصان پہنچا ہو۔

سول ایوی ایشن کے ذرائع نے طیارے کے رن وے کو چھونے کی تصدیق کی ہے، جہاز کی بلندی 7ہزار فٹ تھی، 5ہزار فٹ پر آنے کو کہا گیا، لینڈنگ کی پہلی کوشش کے دوران جہاز کے انجن 3مرتبہ رن وے سے ٹکرائے، جہاز کے انجن سے چنگاریاں بھی نکلیں،جہاز کے رن وے سے ٹکرانے کے نشانات بھی رن وے پر موجود ہیں۔

لینڈ نگ کرتے ہوئے طیارے کا بایاں اور دایاں انجن یکے بعد دیگرے طویل فاصلے تک رگڑ کھاتے ہوئے تین مرتبہ رن وے سے ٹکرائے ، جس کے بعد طیارہ دوبارہ فضا میں بلند ہوگیا۔

سول ایوی ایشن ذرائع کے مطابق حیرت انگیز طور پر لینڈنگ کیلئے آتے ہوئے طیارے کی بلندی مقررہ حد سے تقریباً چار ہزار فٹ زیادہ تھی۔ ائیرٹریفک کنٹرولر نے بلندی کم کرنے کو کہا تو پائلٹ نے کہا کہ وہ اسے مینج کرلے گا۔

اس پر بھی حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے کہ لینڈنگ کے وقت طیارے کا رابطہ کنٹرول ٹاور کے بجائے اپروچ ریڈار کے پاس تھا۔ اپروچ ریڈار میں موجود ائیرٹریفک کنٹرولر اپنی آنکھوں سے طیارے کو دیکھ نہیں رہا ہوتا جبکہ کنٹرول ٹاور میں موجود عملہ اے ٹی سی او طیارے کو دیکھ سکتاہے ۔

تحقیقاتی ذرائع نے امکان ظاہر کیا کہ طیارے کے انجن کے رن وے سے ٹکرانے کی وجہ سے اس کا انجن آئل پائپ اور فیول پائپ لیک ہوگیا ہو ، جس کی وجہ سے ایندھن کی سپلائی متاثر ہوئی ہو اور انجنز کے کام کی صلاحیت اتنی متاثر ہوئی ہو کہ بلاآخر دونوں انجنوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہو۔

مزید خبریں :