ایک اور بدقسمت طیارہ

حالیہ حادثے کے تناظر میں پیشہ ورانہ کوتاہیوں کی نشاندہی کیساتھ ساتھ کڑا احتساب بھی یقینی بنایاجائے—فوٹو فائل

عید الفطر سے دوروز قبل پی آئی اے کے طیارے کے المناک حادثے نے ملکی فضا سوگوار کردی ہے۔ مجھے مناسب الفاظ نہیں مل رہے کہ میں غمزدہ لواحقین سے تعزیت کرسکوں جن کے پیارے اپنی منزل سے چند لمحوں کی دوری پر اگلے جہاں کوچ کر گئے۔

میں نے اپنے ایک کالم بتاریخ15 مارچ 2018ء میں تحریر کیا تھا کہ تابناک تاریخ رکھنے والی، باکمال لوگ لاجواب سروس جیسی شہرت کی حامل، ماضی کی نمبرون ائیرلائن پی آئی اے کے تذکرے پر ہر محب وطن پاکستانی کا دل خون کے آنسو روتا ہے، خاص طور پر جب آپ نے اس عظیم ادارے کا عروج دیکھا ہو، ایک ایسا کامیاب ادارہ جس نے امارات ائیرلائن سمیت آج کی کئی نامور فضائی کمپنیوں کی تشکیل کیلئے افرادی قوت اور تربیت فراہم کی، آج کئی اسکینڈلز کی زد میں ہے۔ 

آج امارات ائیرلائن کو دنیا کی محفوظ ترین ائیرلائن سمجھاجاتا ہے جو روزانہ سیکڑوں پروازیں دنیا بھر کے ممالک کیلئے چلاتی ہے، چند برس قبل2016ء میں بھارت سے یواے ای جانے والی پرواز دبئی انٹرنیشنل ائیرپورٹ پرحادثے کا شکا ر ہوگئی لیکن تمام مسافروں اور فضائی عملے کو بحفاظت بچا لیا گیا، اسی طرح باقی عالمی ائیرلائنز میں بھی حادثاتی اموات کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ 

بدقسمتی سے پاکستان میں گزشتہ دس سالوں میں مجموعی طور پرچار مسافربردارطیارے تباہ ہوچکے ہیں جس میں سیکڑوں معصوم جانوں کا ضیاع ہوچکا ہے ،ائیر بلیوکا طیارہ 2010ء میںمارگلہ پہاڑیوں میں کریش ہوا، دو سال بعد بھوجا ائیرلائن کا جہاز حادثے کا شکار ہوا، پی آئی اے کا مسافر بردار جہاز 2016ء میں حویلیاں میں گر کر تباہ ہوگیا اور اب پی آئی اے کا ہوائی جہاز بحفاطت لینڈنگ کرنے کی بجائے کراچی میں آبادی پر جا گرا۔ 

ہر المناک حادثے کے بعدمیڈیا پر یک دم شور مچ جاتا ہے،بریکنگ نیوز چلتی ہیں،اخبارات میں تجزئیے شائع ہوتے ہیں، مختلف نوعیت کے سوالات اٹھائے جاتے ہیں، سوشل میڈیا پر نت نئے سازشی نظریات منظرعام پر آتے ہیں، تعزیتی پیغامات جاری کئے جاتے ہیں، حادثے کی تحقیقات کیلئے انکوائری کمیٹیاں قائم کی جاتی ہیںلیکن کبھی ذمہ داران کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جاتا بلکہ طیارے اور مسافروں کو بدقسمت قرار دے کر خدانخواستہ اگلے حادثے کے رونماء ہونے تک چپ سادھ لی جاتی ہے۔

حالیہ حادثہ کے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے خصوصی تحقیقاتی بورڈ قائم کردیا گیا ہے جبکہ فرانس کے ماہرین کی ٹیم بھی جائے وقوع کا جائزہ لینے کیلئے پاکستان میں موجود ہے، تاہم اس تحقیقاتی بورڈ کی ساکھ پر بہت سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں، عالمی مجوزہ طریقہ کار کے مطابق تحقیقاتی عمل میں شفافیت کا عنصر یقینی بنانے کیلئے غیرجانبدار اراکین کی موجودگی ضروری ہے۔

دوسری طرف پائلٹس کی نمائندہ تنظیم پالپا کی جانب سے تحقیقاتی بورڈ کو مسترد کرتے ہوئے جواز پیش کیا گیا ہے کہ کمرشل طیاروں کے حادثوں کی تحقیقات عالمی ماہرین اور کمرشل پائلٹس سے کرانی چاہیے، پائلٹس کی تنظیم کا مطالبہ ہے کہ تفتیشی بورڈ میں انٹرنیشنل سول ایوی ایشن، پالپا اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف ائیر لائن پائلٹس کے نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے۔

تاہم پی آئی اے انتظامیہ کی جانب سے پالپا کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے تنازع کے باعث انتظامیہ اور پائلٹس میں صورتحال کشیدہ ہے۔پرواز سے قبل طیارے کو چیک کرنے کی ذمہ داری انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کی ہے،امارات اور دیگر عالمی ایئرلائنز کی نسبت پی آئی اے انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ میں بیس گنا زیادہ عملہ موجود ہے جو ماضی کی سیاسی و سفارشی بھرتیوں کا نتیجہ ہے جو طیاروں کی صحیح طرح دیکھ بھال کرنے سے قاصر ہے،اسی طرح ایئرپورٹس کے انتظامات کیلئے جوابدہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سربراہ کی عدم تعنیاتی ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

 یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں ایئرپورٹس آؤٹ سورس کرنے کی تجویز منظرعام پر آچکی ہے۔ حادثے کے فوراََ بعد جس موثر انداز سے پاک فوج اور رینجرز کے جوانوں نے ریسکیو اقدامات کئے، وہ قابلِ تحسین ہیں۔

علاقہ مکین بھی اپنے تباہ حال گھر چھوڑ کر متاثرین کی مدد کیلئے پہنچ گئے، تاہم افسوس کا مقام ہے کہ صوبائی حکومت کی طرف سے کوئی قابل قدر کوشش نہ کی جاسکی، حادثے کے ایک ہفتے بعد بھی لواحقین اپنے پیاروں کی میتوں کے حصول کیلئے دربدر بھٹک رہے ہیں لیکن اداروں کے مابین کوآرڈینیشن کا فقدان ہے، ایسے اچانک سانحہ سے نبزدآزما ہونے کیلئے این ڈی ایم اے کی کارکردگی بھی کہیں نظر نہ آئی، خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ایدھی ٹرسٹ اور چھیپا فاؤنڈیشن نے اس موقع پر اہم کردار ادا کیالیکن حکومت کی طرف سے سردمہری کی بناپر ان کے رضاکاروں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

میں سمجھتا ہوں کہ مستقبل میں ایسے افسوس ناک حادثوں سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ پی آئی اے جیسے قومی اثاثے کو عالمی معیار کے مطابق ازسرنو ترتیب دیا جائے، اگر انٹرنیشنل فلائٹس کیلئے حفاظتی ایس او پیز فالو کئے جاسکتے ہیں تو ڈومیسٹک روٹس پرمحوپرواز غیرمعیاری طیاروں کے مسافروں کو کیوں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے؟ 

ہمیں طیارہ کے حادثے کے بعد مرحوم پائلٹ پر سارا ملبہ ڈالنے کی روش ترک کرنا ہوگی اور اپنی لاپروائی پر پردہ ڈالنے کیلئے طیارے کو بدقسمت کہنے کا سلسلہ بھی بند کیا جائے۔ وزیراعظم عمران خان کے دورحکومت میں طیارہ حادثے کا پہلا واقعہ پیش آیا ہے، مجھے امید ہے کہ ماضی کے برعکس موجودہ حکومت اس حادثے کو ٹیسٹ کیس سمجھ کر تمام توانائیاں وقف کرے گی میں سمجھتا ہوں کہ ائیرپورٹس کو آؤٹ سورس کرنے سے قبل پی آئی اے اور دیگر فضائی اداروں کے تمام طیاروں کی چیکنگ کسی عالمی ٹیکنیکل کمپنی سے فوری طور پر کرائی جائے۔

 حالیہ حادثے کے تناظر میں پیشہ ورانہ کوتاہیوں کی نشاندہی کیساتھ ساتھ کڑا احتساب بھی یقینی بنایاجائے۔ اس حوالے سے میری خدا سے دعا ہے کہ یہ المناک حادثہ پاکستان کی فضائی تاریخ کا آخری حادثہ ثابت ہو ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔