30 مئی ، 2020
جیسے آگ اور پانی نہیں مل سکتے، دریا کے دو پاٹ اکٹھے نہیں ہو سکتے، شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی نہیں پی سکتے، بلی اور چوہے میں دوستی نہیں ہو سکتی بالکل ایسے ہی سندھ کی شہری اور دیہی قیادت میں سانجھ نہیں ہو سکتی، یہ لڑتے رہے ہیں اور لڑتے رہیں گے۔
ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بدل گئی۔ دیوارِ برلن گر گئی، مشرقی اور مغربی جرمنی ایک ہو گئے، برطانیہ اور فرانس کی سو سالہ جنگ ختم ہونے کے بعد انگلش چینل (زیر سمندر سرنگ) بن گیا، آئر لینڈ کے متحارب گروپوں کی جنگ ٹھنڈی ہو گئی، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی مگر سندھی اور مہاجر کے درمیان فاصلے نہ مٹ سکے۔
ایم کیو ایم کے بانی نے مجھے کہا تھا کہ سندھی سیاست میں بہت گہرے اور عقل مند ہیں، دوسری طرف اردو بولنے والے سب سے زیادہ پڑھے لکھے اور سمجھ دار ہیں مگر دونوں کی عقل پر ایسا پردہ پڑا ہوا ہے مشترکہ ماضی، مشترکہ حال اور مشترکہ مستقبل کے باوجود اپنے اختلافی مسائل کے حل کے لئے مل بیٹھنے تک کو تیار نہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان دونوں کے مسائل کا کوئی قابلِ عمل حل نہ ہو مگر نہ آج تک یہ اکٹھے چلنے کو تیار ہوئے ہیں نہ کسی سنجیدہ حلقے نے ان کے درمیان کوئی باعزت سانجھ کی کوشش کی ہے۔
اس کا کوئی بھی ذمہ دار ہو اور اس کی جو بھی وجہ ہو، یہ سب اہلِ سندھ کے لئے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
وفاق اور صوبہ سندھ کی حکومت کے درمیان آئیڈیل تعلقات تو کبھی نہیں رہے مگر کورونا وبا اور این ایف سی کے معاملے میں دونوں کے تعلقات کافی بگڑ گئے ہیں۔
کورونا وبا کے دوران وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا تاثر بہتر ہوا ہے تو دوسری طرف اسلام آباد کی اقتدار گیلریوں میں گورنر سندھ کو ہٹانے یا نہ ہٹانے پر چہ میگوئیاں ہونے لگیں، ذوالفقار مرزا، ایک ریٹائرڈ جنرل پاشا اور کئی نام بھی نئے گورنر کے لئے سامنے آ گئے تاہم سندھ کے سب سے طاقتور اور بڑے نے کسی ایسی مہم جوئی کے لئے ہامی نہیں بھری اور کچھ وقت کے لئے یہ معاملہ ٹل گیا ہے لیکن کیا معلوم کب دوبارہ سر اٹھا لے۔
جب تک شہری اور دیہی سندھ آپس میں لڑتے رہیں گے، سیاسی طور پر ایک دوسرے سے برسرِپیکار رہیں گے سندھ ترقی نہیں کر سکے گا۔ یہ آسان سا معاملہ اتنے بڑے اور سیانے لوگوں کے ذہن میں کیوں نہیں آتا؟
میں خود کو سندھ سپت سمجھتا ہوں، دریائے سندھ کی تہذیب میں جنم لیا ہے، دریائے سندھ کا پانی پیا ہے اور اس کی تاریخ کا ایک ادنیٰ طالبعلم ہوں، اس لئے عروس البلاد کراچی کی ماند پڑتی روشنیاں دیکھوں یا سندھ کے دیہات کی اڑتی گرد، کراچی میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بیروزگاری دیکھوں یا سندھ دیہات میں رنگ برنگے کپڑے پہنے ٹوٹی جوتیوں والے بچے، میرا دل کڑھتا ہے۔
جی چاہتا ہے کہ میرے پنجاب کی طرح میرا سندھ بھی تیزی سے ترقی کرے مگر افسوس کہ اس کی اندرونی لڑائیاں ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہیں۔
ان لڑائیوں کی وجہ سے سندھی قوم پرست اور ایم کیو ایم، جام صادق، ارباب غلام رحیم ہر اُس صوبائی حکومت کے اتحادی رہے ہیں جو پیپلز پارٹی کی مخالف تھی۔ اگر معاملہ نظریاتی ہوتا تو پھر یہ اتحاد کیسے ممکن تھا؟ دوسری طرف پیپلز پارٹی بھی اس صورتحال کی ذمہ دار ہے کیونکہ اتنے سال صوبے میں حکومت کرنے کے باوجود وہ شہری سندھ کے مسائل کا ادراک کرنے میں ناکام رہی ہے اور نہ ہی کبھی اس نے شہری سندھ میں ووٹ حاصل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ ان دونوں بڑے گروہوں کی آنکھیں کیوں بند ہیں؟
کیا انہیں سمجھ نہیں آتا کہ ان دونوں کی لڑائی کا فائدہ ہمیشہ تیسرا اٹھاتا ہے؟ لیکن یہ ایسے کور چشم ہیں کہ آپس میں اکٹھے چلنے کا کوئی قابل عمل فارمولا تک نہیں بناسکے۔
میں 1989میں بیگم ایلس فیض کی سربراہی میں بھیجے گئے ہیومن رائٹس کمیشن کے وفد کا سب سے کم عمر رکن تھا، کراچی دورے کے دوران ہم نے کشت و خون اور لسانی فسادات کو بچشم خود دیکھا، ہر سیاسی جماعت اور چیدہ چیدہ افراد سے ملے۔
جس طرح شہری سندھ میں امن و امان کی صورتحال رہی وہ یاد کر کے اب بھی خوف آتا ہے۔ رینجرز کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے بہت حد تک امن و امان کو بحال کر دیا ہے مگر ابھی تک نفرتوں کو محبت میں بدلنے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی، اکٹھے مل کر چلنے کا کوئی طریقہ نہیں ڈھونڈا گیا۔ امن و امان کی بحالی پہلا قدم تھا مگر اصل بات تو دیر پا حل کی ہے جس کی طرف بڑھنا چاہئے۔
پیپلز پارٹی اور شہری سندھ دونوں کے اندر بڑی سیاسی تبدیلیاں آ چکی ہیں، شہری سندھ کی قیادت اب نئے لوگوں اور نئے چہروں کے پاس آ گئی ہے، اسی طرح پیپلز پارٹی کی زمامِ اقتدار بھی اب بلاول بھٹو کے پاس ہے۔ بلاول بھٹو کو خود بھی شاید یہ احساس ہے کہ شہری سندھ کے اہل سیاست کو ساتھ لے کر چلنے ہی سے صوبے کی ترقی ممکن ہے اسی لئے بلاول بھٹو نے متحدہ کو اپنے ساتھ مل کر حکومت کرنے کی دعوت دی تھی۔ متحدہ نے اس دعوت کو درخور اعتنا نہیں سمجھا اور وفاق میں عمران خان کے ساتھ اپنے معاملات کو بہتر کرنے کو ترجیح دی ہے۔
سندھ سے محبت کرنے والے شخص کے طور پر میری رائے میں وہاں پچھلی چار دہائیوں میں جو ہوا اس سے سبق سیکھنا چاہئے۔ اگر غور کیا جائے تو آپس کی لڑائیوں میں دونوں بڑے طبقات کا نقصان ہوا۔
سندھ کا دارالحکومت کبھی معیشت کا مرکز تھا، ان لڑائیوں کی وجہ سے اسے گرہن لگ گیا۔ سندھ میں گیس ذخائر سے بجلی بننے کے بعد سے وہاں کے معاشی حالات میں جو انقلابی تبدیلی آنی چاہئے تھی وہ بھی نہیں آ سکی۔
دیہی سندھ کے ذہین سیاستدانوں اور شہری سندھ کے قابل بابوئوں سے مودبانہ درخواست ہے کہ آپ نے بہت لڑ لیا، ایک دوسرے کے خلاف جو کچھ بن پڑتا تھا، کر لیا۔ قتل و غارت، فساد، لڑائی جھگڑے، اسمبلی کے اندر ہنگامے اور جلسے جلوس، کیا کچھ نہیں کیا گیا۔
ایک بار دوسرا راستہ بھی اپنا کر دیکھیں، خلوص دل سے اکٹھے مل کر چلیں، مسائل کا باعزت اور دیر پا حل نکالیں، ایک دوسرے کے حقوق پر قبضہ کرنے کے بجائے ایک دوسرے کا جائز حق تسلیم کریں، بیشک سیاست الگ رکھیں لیکن مسائل کے حل کے لیے اکٹھے ہو جائیں۔ اسی سے سندھ اور اسی سے پاکستان مضبوط ہو گا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔