30 مئی ، 2020
قارئین کرام! آج ’’آئین نو‘‘ کے جاری سلسلے بعنوان ’’میر شکیل الرحمٰن کے قومی ’’جرائم‘‘ کی گواہی کے حوالے سے مئی 2009 میں اندرو باہر سے دہشت گردی کی زد میں آئے اور ملکی میڈیا میں تقریباً Unreportedہوئے بلوچستان کو مطلوب کوریج دینے کی نتیجہ خیز شیئرڈ پالیسی’’رپورٹ بلوچستان‘‘ کی تیاری کا پس منظر بیان کیا جا رہا ہے۔
(واضح رہے کہ اس وقت کوئٹہ صوبے کے میڈیا مرکز کے طور پر شدید دبائو میں تھا) اگرچہ اس کارِ خیر میں عزیزم حامد میر سمیت، جنگ/ جیو اور دی نیوز کی تمام ایڈیٹوریل حرارکی شامل تھی، لیکن غیر معمولی اور تاریخی پیشہ ورانہ سرگرمی کے محرک (ناچیز) کی اس ’’شرارت‘‘ کے نتیجے میں جنگ/ جیو کی مکمل حرارکی ، اسلام آباد / راولپنڈی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ سے کراچی پہنچی تھی۔ تاہم میری توفقط پروفیشنل ٹپ ہی تھی باقی سب کچھ پالیسی سازی کا ڈیزائن تا نتائج کا حصول شکیل صاحب کا کمال کارِ خیر تھا۔
تبھی تو میں انہیں سب سے بڑے ملکی میڈیا سیٹھ کے ساتھ پاکستان کا میڈیا لیڈر کہتا ہوں جو پورے جنوبی ایشیا، گلف ریجن اور سمندر پار پاکستانیوں کو ان کے جذبات و احساسات اور ملکی و عوامی ضروریات کے مطابق گروپ کی ایجنڈا سیٹنگ سے اثر انداز ہونے کی بھرپور صلاحیت کا حامل ہے۔
چونکہ اس قومی ’’جرم‘‘ میں مَیں معاونت جرم کا ہی مرتکب نہیں، اکسانے کا بھی مجرم تھا تو جانیے میں نے ایڈیٹر انچیف کو کیوں ’’گمراہ‘‘ کیا؟
زمانہ طالبعلمی تا دم میری طویل پیشہ ورانہ اور نجی زندگی میں بلوچستان ایک اہم حوالہ رہا۔ پاکستان کے چوڑے سینے کی مانند صوبے کا پہلا وزٹ، پنجاب یونیورسٹی کے ہیلے کالج آف کامرس کی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر جہانگیر بدر کی معیت میں بطور گیسٹ اسٹوڈنٹ کیا۔ حالانکہ وہ مجھے اپنے کٹر اور عملی مخالف لاہور کے اسٹوڈنٹس لیڈر کے طور پر جانتے تھے۔
صحافی اور شاعر تسلیم احمد تصور اور میں نے اسلامیہ کالج سول لائنز میں زیر تعلیم ہوتے’’ اسلامک اسٹوڈنٹس فرنٹ‘‘قائم کیا تھا، ہم کسی ایسی طلبہ تنظیم کو جوائن کرنے کے مخالف تھے جو کسی سیاسی جماعت کا پارٹی ونگ ہو۔ تسلیم صدر اور میں فرنٹ کا جنرل سیکرٹری تھا اور ہمارے یونٹس پنجاب یونیورسٹی اور لاہور کے تمام قابل ذکر کالجز میں تھے۔ جہانگیر بدر بخوبی مجھے اس حیثیت میں جانتے تھے کہ فرنٹ نے پنجاب یونیورسٹی کی انتخابی مہم میں ان کے مقابل امیدوار حافظ ادریس کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ لیکن مجھے گیسٹ اسٹوڈنٹ بننے کی دعوت ہیلے کالج میں ہی ان کے دو سپورٹرز اور میرے دوستوں خلیل شاہ اور منصور نے دی تھی، جسے جہانگیر بدر نے بڑی فراخدلی سے قبول کیا۔
یوں میں ان کی معیت میں کوئی ایک سو طلبہ کے بڑے گروپ کا حصہ بنا جس میں چھ گیسٹ اسٹوڈنٹس تھے۔ یہ ایک بڑا مطالعاتی اور تفریحی دورہ تھا جس میں میری اللہ بخشے جہانگیر بدر مرحوم سے دوستی نہیں تو بڑے نظریاتی باہم مخالفین کے زندگیوں تک قائم رہنے والے مثالی تعلقات ضرور قائم ہوئے۔ اس وقت شورش زدہ تعلیمی اداروں میں خال خال ہی ایسی مثالیں تھیں۔ بین الصوبائی ہم آہنگی کا جو تجربہ اور مشاہدہ اس دورے کے بینی فشری طلبہ کو ہوا وہ دور رس نتائج کا حامل ثابت ہوا۔ اور میرے لئے تو بہت۔
بلوچستانی طلبہ سے ہماری دوستیاں ہوئیں، جو زیادہ قلمی ہی تھیں لیکن طلبہ انہیں مدعو کرتے لیکن جو لاہور اور کوئٹہ جاتا تو بڑا خاص مہمان ہوتا۔ سیاسی و سرکاری حکام، اساتذہ اور طلبہ نے ہمیں دعوتیں اور اوڑک کے باغوں میں پنجابی اور بلوچستانی مالکان نے فراخدلی سے خودتوڑے سیبوں کا تحفہ دیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کرتے ہی ہمارے تین ساتھی سرور منیر رائو، خالق سرگانہ اور اقبال پی ٹی وی اور جنگ کوئٹہ سے منسلک ہوگئے۔
میں نے لاہور میں ایک قومی اخبار کے رپورٹر کے طور پر نواب اکبر بگٹی کی تقریباً ہر آمد پر ان کا نیوز انٹرویو کیا، وہ میاں محمود علی قصوری کی فین روڈ والی رہائشگاہ پر ان کے مہمان ہوتے اور مجھے بلا لیتے۔ پی پی حکومت کے خلاف انتخابی دھاندلیوں پر ملک گیر عوامی تحریک چلی تو وہ ریلیوں کے قریب اخبار نویسوں کے قریب آتے اور تواتر سے کہتے ’’لاہور جاگ گیا ہے‘‘۔
جولائی 77ء کے مارشل لا کے بعد پہلی مرتبہ لاہور آئے تو معمول کے نیوز انٹرویو میں ذوالفقار علی بھٹو پر آن ریکارڈ’’گوادر بیچنے میں ناکامی‘‘ کا الزام لگایا۔ چھپ گیا تو تردید کردی۔ جب میں نے اپنی پوزیشن پر قائم رہنے کا وضاحتی فالو اَپ دیا تو ناراض ہوگئے۔ پھر کبھی رابطہ انہوں نے کیا نہ میں نے۔ تاہم میں بطور رپورٹر کسی بھی بلوچستانی لیڈر کی لاہور آمد پر اس سے نیوز انٹرویو کی کوشش کرتا اور یوں نبی بخش زہری اور باقی بلوچ کے ایسے کئی انٹرویو کئے۔
یوں میرے پیشہ ورانہ پس منظر میں بلوچستان ابتدا سے ہی اہم رہا۔ پنجاب یونیورسٹی بطور لیکچرر جوائن کی تو وزیر تعلیم ڈاکٹر افضل کی قائم نیشنل اکیڈمی آف ہائر ایجوکیشن میں سندھ اور بلوچستان کی پبلک یونیورسٹی کے نوجوان اساتذہ سے گہری دوستیاں ہوئیں۔ برسوں قائم کچھ رابطے سیاسی بحرانوں کی نذر ہوگئے، کچھ قائم ہیں۔ سندھ سے شماریات کے پروفیسر عبدالقادر پھلپوٹا اب تک اپنے باغ سے اتری کھجوروں کا گھڑا تحفتاًبھجواتے ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی میں اپنے شعبے کے اسٹوڈنٹس ایڈوائزر کے طور پر بلوچستان کے دو اور کراچی کے کتنے ہی مطالعاتی اور تفریحی دورے پلان کئے جس میں ہر دو مقامات کا ایک دورہ بہت مفید اور یادگار ثابت ہوا، جو ڈاکٹر اے آر خالد اور مجھ سمیت کوئی تیس بتیس طلبہ نے پہلے کراچی اور پھر وہیں سے کوئٹہ کا کیا۔
پنجاب یونیورسٹی شعبہ ابلاغیات کے ہر دورہ کراچی کے ہمارے دو بڑے میزبان ہوتے ایک کراچی یونیورسٹی کا شعبہ ابلاغیات دوسرے ادارہ جنگ گروپ کے بانی میر خلیل الرحمٰن، جو ہمارے لیے کسی بڑے ہوٹل میں گرینڈ ڈنر کا اہتمام کرتے جس میں کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ بھی شریک ہوتے۔
اللہ بخشے میر صاحب ہر مرتبہ کہتے ’’اے لاہوری منڈے تے شیطان ہوندے نے، ڈنر لئی ہوٹل دا فیصلہ میری لاہوری بیٹیاں کرن گیئاں‘‘(لاہوری لڑکےتو شرارتی ہوتے ہیں، ڈنر کے لئے ہوٹل کا فیصلہ میری لاہوری بیٹیاں کریں گی) (جاری ہے)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔