03 جون ، 2020
امریکا میں پولیس حراست میں سیاہ فام شخص کی موت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں بھی نہ رک سکیں جبکہ 9 ہزار سے زائد مظاہرین کو گرفتار کرلیا گیا۔
خیال رہے کہ امریکی ریاست منی سوٹا کے شہر مینی پولِس میں گزشتہ دنوں سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ ہلاک ہوگیا تھا جس کے بعد سے امریکا کی مختلف ریاستوں میں ہنگامے اور فسادات جاری ہیں۔
حالات پر قابو پانے کے لیے 40 مختلف شہروں میں کرفیو کا نفاذ کیا گیا ہے تاہم حالات پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔
پورٹ لینڈ شہر میں کرفیو کے باوجود مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور سیاہ فاموں سے امتیازی سلوک کے خلاف احتجاج کیا، اس دوران پولیس کی جانب مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی گئی جس پر علاقہ میدان جنگ بن گیا اور اس کے بعد سیکڑوں مظاہرین کو گرفتار کرلیا گیا۔
واشنگٹن میں قانون نافذ کرنے والوں کی مدد کےلیے فوجی اہلکار بھیج دیے گئے، اس پر امریکی محکمہ دفاع کا کہنا ہے کہ فوجی اہلکاروں کی تعیناتی کا مقصد امن کے قیام میں سویلین حکام کی مدد کرنا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے سامنے بھی نسلی امتیاز کے خلاف مظاہرہ کیا گیا، اس دوران پولیس اور مظاہرین میں جھڑپ بھی ہوئی تاہم جلد ہی مظاہرین منتشر ہوگئے۔
ادھر نیویارک میں بھی جنگ عظیم کے دوم کے بعد پہلی بار ہفتہ بھر کا کرفیو نافذ کردیا گیا ہے تاہم اس کے باوجود بڑی تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے، مظاہرین کو روکنے کے لیے نیو یارک کے مین ہیٹن برج پر پولیس نے رکاوٹیں کھڑی کردیں۔
گذشتہ روز نیویارک میں مختلف اسٹورز اور دکانوں کو لوٹنے اور توڑپھوڑ کے واقعات بھی پیش آئے تھے جس کے بعد 1500 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے امریکی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ مظاہرین کے حوالے سے تحمل کا مظاہرہ کریں۔
ٹوئٹر پر اپنے بیان میں انتونیو گوتریس کا کہنا تھا کہ نسل پرستی ایک قابل نفرت نظریہ ہے جسے سب کو مسترد کردینا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنے میزبان ملک اور میزبان شہر نیویارک کی سڑکوں پر تشدد دیکھ کر انہیں دکھ ہورہا ہے۔
اس حوالے سے کیتھولک عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں جارج فلوئیڈ کی موت پر صدمہ ہے۔
پوپ فرانسس کا کہنا ہے کہ نسل پرستی کے حوالے سے کوئی بھی اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتا تاہم اس سلسلے میں احتجاج پرامن ہونا چاہیے۔