Time 10 جون ، 2020
صحت و سائنس

کون سے بلڈ گروپ کے افراد کورونا وائرس کا زیادہ شکار ہوسکتے ہیں؟

فوٹو فائل—

سائنسدانوں نے مختلف تحقیقات کی طرح اس بات پر بھی تحقیق کی ہے کہ موذی کورونا وائرس کون سے بلڈ گروپ کے افراد کو تیزی سے شکار بنا رہا ہے۔

 بائیو ٹیکنالوجی کی ٹیسٹنگ کمپنی ’23 اینڈ می‘ کی ایک تحقیق میں یہ دعویٰ کیا گیاہے کہ انسانی  جین میں ایسا فرق پایا گیا ہے جو خون کو متاثر کرتا ہے جس سے کووڈ 19 کا شکار ہوسکتے ہیں۔

سائنسدانوں کی جانب سے جینیاتی عوامل پر تحقیق کی جارہی ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ کیوں کچھ افراد بغیر علامات ظاہر ہوئے کورونا وائرس میں مبتلا ہوجاتے ہیں جب کہ جن میں علامات ظاہر ہوتی ہیں وہ شدید بیمار ہوجاتے ہیں ان کے بلڈ گروپ کا کوئی تعلق ہے یا نہیں۔

یہی وجہ تھی کہ 23 اینڈ می نے اپریل میں ایک تحقیق کا آغاز کیا جس میں لاکھوں افراد کی ڈی این اے پروفائل استعمال کی تاکہ اس کے ڈیٹا سے امراض میں جینیات کے کردار کا پتا لگایا جاسکے۔

کمپنی کے مطابق کسی فرد کے خون کا گروپ یہ بتا سکتا ہے کہ وہ کس حد تک کورونا وائرس کی زد میں آئے گا لہٰذ اس کے لیے 7 لاکھ 50 ہزار تک متاثرہ افراد کے بلڈ سیمپلز لیے گئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بلڈ گروپ ’O‘ کے حامل افراد کم جب کہ ’B‘ اور ’AB‘ بلڈ گروپ کے حامل کورونا وائرس سے زیادہ متاثر  ہوئے ہیں۔

تحقیق کے مطابق بلڈ گروپ O والے افراد دوسرے گروپوں کے مقابلے میں کورونا وائرس سے زیادہ محفوظ ہیں کیونکہ اس کا دوسرے گروپس کے مقابلے میں 9 سے 18 فیصد تک امکان کم ظاہر ہوتا  ہے کہ  ان کا کووِڈ-19 کے ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آئے گا۔

تحقیق سے معلوم ہوا کہ B اور AB  کے حامل افراد میں کورونا وائرس کا شکار ہونے کے زیادہ امکانات ہیں کیونکہB اور AB میں کووِڈ-19 کے مثبت ٹیسٹ کی شرح سب سے زیادہ دیکھی گئی ہے جب کہ بلڈ گروپ A والے ان دونوں کے درمیان ہیں۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے نتائج  کے لیے عمر، صنف، جسمانی انڈیکس اور نسلی شناخت کے عوامل کو خاص طور پر مد نظر  رکھا گیا ہے۔

اس تحقیق میں جہاں یہ پتا چلا ہے کہ بلڈ گروپ O کے حاملین کووِڈ-19 کا سب سے کم شکار ہوئے ہیں وہیں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس گروپ کے افراد وائرس کی وجہ سے بہت کم تعداد میں علاج معالجے کے لیے اسپتال گئے ہیں۔

تحقیق  سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے  کہ  بلڈ گروپ اگر B نیگیٹو یا B پازیٹو ہے تو ایسے افراد کے کورونا کا شکار ہونے کی شرح میں کوئی نمایاں فرق نہیں دیکھا گیا۔

 تاہم  اب تک یہ نہیں دیکھا گیا کہ پازیٹو بلڈ گروپ والے زیادہ متاثر ہوئے ہیں یا پھر نیگٹو گروپ والوں کی تعداد کم رہی ہو۔

مزید خبریں :