لاک ڈاؤن یا تباہی؟

فوٹو: فائل

دسمبر میں چین کے شہر ووہان میں کورونا کی وبا کا آغاز ہو گیا تھا لیکن پاکستانی میڈیا میں حسبِ روایت اس کا تذکرہ نہیں آیا تھا۔ پہلی مرتبہ میں نے کورونا کا ذکر اپنے دوست اکبر ناصر خان کے ٹوئٹ، جو انہوں نے 22  جنوری 2020کو کیا تھا، میں سنا۔

اس ٹوئٹ میں انہوں نے بتایا تھا کہ چونکہ چین میں اس وبا سے 473افراد متاثر ہوئے ہیں اس لیے ہمیں اپنے ہوائی اڈوں اور دیگر مقامات پر ابھی سے حفاظتی انتظامات کرنا چاہیں تاکہ یہ وبا پاکستان میں نہ گھس آئے۔ ان کے ٹوئٹ سے حکمرانوں کے کان پر تو جوں نہیں رینگی لیکن میں نے کورونا کی وبا کو فالو کرنا شروع کر دیا اور محترم بھائی علی معین نوازش جو روزانہ کی بنیاد پر اس سے متعلق تحقیق کیا کرتے تھے، سے اپ ڈیٹ لیتا رہا۔

یہی وجہ ہے کہ جس دن پاکستانی میڈیا پر عورت مارچ اور حکومتی ترجمانوں کی گالم گلوچ کا سلسلہ زوروں پر تھا، تو میں کورونا کے موضوع پر ٹی وی پروگرام پیش کر اور کالم لکھ رہا تھا۔ 

سوال یہ ہے کہ جو فکر اکبر ناصر خان نے کی وہ ہمارے متعلقہ اداروں اور وزارتوں نے کیوں نہ کی اور پھرجب ہم جیسے طالبعلم لوگوں کو اس کے بارے میں متوجہ کر رہے تھے تو حکومت اپنا یہ فرض بروقت کیوں نہیں نبھا رہی تھی۔ پھر جب ایران میں بھی کورونا وائرس پھیل گیا اور پاکستان، چین و ایران کے مابین گویا سینڈوچ بن گیا، تب تو ہماری حکومت کو سب کام چھوڑ کر اس کی طرف توجہ دینا چاہیے تھی لیکن اس وقت بھی کوئی تیاری نہیں کی گئی۔

الٹا ہماری حکومت نے ایران سے بعض وفاقی وزیروں اور مشیروں کے دبائو پر سینکڑوں کی تعداد میں متاثرین کو قرنطینہ میں بھیجے بغیر ملک میں پھیلا دیا۔

اور تو اور ہماری حکومت نے ایک دوسرے سے ہاتھ نہ ملانے کے حکم نامے جیسے بےضرر اور بغیر خرچے کے کاموں میں بھی غیرمعمولی تاخیر کر دی۔ جب صدرِ مملکت ایک دوسرے سے ہاتھ نہ ملانے کی نصیحت پر مبنی ویڈیو جاری کر رہے تھے، تو ہم جیسے لوگ اس سے دو ہفتے قبل اس کیلیے ٹوئٹر، اخبار اور ٹی وی وغیرہ پر مہم شروع کر چکے تھے۔

حالانکہ پاکستان میں پہلا کیس سامنے آتے ہی حکومت کو یہ فیصلہ کر دینا چاہیے تھا۔ یہ زحمت بھی عارف علوی صاحب نے اس لیے گوارا کی کہ جب وہ چین جا رہے تھے تو انہیں پتا چل گیا تھا کہ ایک روز کیلیے قائم قام صدر بنتے ہی صادق سنجرانی صاحب نے قوم کے نام یہ پیغام جاری کرنا ہے، اس لیے صبح بیرونِ ملک روانہ ہونے سے قبل انہوں نے یہ زحمت گوارا کی۔

اور تو اور سوشل ڈسٹنسنگ کے فیصلے میں بھی حکومت نے بہت دیر کر دی اور فیصلہ ہو جانے کے بعد بھی سب سے زیادہ خلاف ورزی حکومتی لوگوں کی طرف سے دیکھنے کو ملی۔ بہرحال جو بھی ہوا اور جس کی بھی غلطی تھی، کورونا وائرس پاکستان میں پھیل گیا۔ اب عقلمندی کا تقاضا یہ تھا کہ پہلی فرصت میں ماسک پہننا لازمی قرار دیا جاتا اورحکمران خود دیگر تمام طبقات کے قائدین کو ساتھ لے کر قوم کو اس کی سنگینی سے آگاہ کرتے لیکن ایسا کرنے کے بجائے کبھی ہمارے حکمران کہتے کہ یہ صرف فلو ہے، کبھی کہتے کہ بھوک کورونا سے بڑا خطرہ ہے، خرم شیر زمان جیسے کچھ حکومتی دانشور کہتے کہ پاکستان میں جو وائرس آیا ہے، وہ اٹلی والا نہیں ہے۔

دوسری طرف وفاقی وزرا اور ترجمان‘ سندھ حکومت سے الجھ گئے کہ وہ کورونا کو بڑا خطرہ کیوں بنا کر پیش کر رہی ہے چنانچہ وہ سندھ حکومت کی دشمنی میں کورونا وائرس کو کم خطرناک اور لاک ڈاؤن کو زیادہ خطرناک ثابت کرنے میں لگ گئے۔ کورونا کی وبا پھیلتے ہی میں نے اپنے ٹی وی پروگرام جرگہ میں مولانا فضل الرحمٰن، سراج الحق اور مولانا طارق جمیل جیسے لوگوں کو باری باری دعوت دی۔

ان کی مہربانی کہ سب نے عوام کو ایجوکیٹ کرکے ڈاکٹروں کی رائے پر عمل کرنے کی نصیحت کی اور عوام سے یہ بھی اپیل کی کہ وہ اس سلسلے میں حکومتی فیصلوں کی پابندی کریں لیکن حکومت نے ان لوگوں کی پیشکشوں سے فائدہ اٹھایا اور نہ خود معاملے کو سنجیدہ لیا۔ سوائے برازیل کے باقی ساری دنیا نے لاک ڈاؤن اور سوشل ڈسٹنسنگ کا سہارا لیا تھا اور ہمارے پاس بھی واحد حل یہی کڑوی گولی تھی لیکن ہمارے وزیراعظم ضد میں آئے ہوئے تھے اور لاک ڈائون کرنے سے گریز کرتے رہے۔

پھر جب ان کو اس فیصلے پر مجبور کر دیا گیا تو وہ روزانہ ٹی وی پر آکر لاک ڈاؤن کے نقصانات بیان کرتے رہتے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کسی بھی صوبائی حکومت نے پورے خلوص کے ساتھ لاک ڈاؤن نہیں کیا بلکہ جو کیا وہ لاک ڈاؤن کے نام پر ایک مذاق تھا تاہم اس سے بڑا مذاق عوام کی زندگیوں کے ساتھ حکومت نے یہ کیا کہ کورونا متاثرین اور ہلاکتوں کا گراف اوپر جانے کے باوجود لاک ڈاؤن ختم کر دیا جس کی دنیا میں کہیں مثال نہیں ملتی۔

لاک ڈاؤن ختم ہونے سے نفسیاتی طور پر لوگوں کو یہ بھی پیغام ملا کہ شاید مسئلہ ختم ہو گیا، اس لیے پاکستانیوں نے حسبِ روایت بے احتیاطی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے اور نتیجتاً آج کورونا پاکستان میں تباہ کاریوں کے ریکارڈ توڑنے لگا ہے۔ 

ڈبلیو ایچ او نے حکومت پاکستان کے نام جو خط لکھا ہے، وہ ایک چارج شیٹ سے کم نہیں جس میں لاک ڈاؤن کی تاکید کی گئی ہے لیکن افسوس کہ حکومت اب بھی اس طرف آنے پر آمادہ نہیں۔

جب پہلا لاک ڈاؤن ختم کیا جا رہا تھا تو پاکستان کے ڈاکٹرز ہاتھ جوڑ کر منتیں کر رہے تھے لیکن تب حکومتی بقراطوں نے ان کی نہ سنی۔ آج ڈاکٹروں کی رائے حرف بحرف درست اور حکومتی بقراطوں کی غلط ثابت ہوئی۔ 

اب وہی ڈاکٹرز بتا رہے ہیں کہ اگر حکومت نے اب بھی ضد کا مظاہرہ کرکے لاک ڈاؤن نہ کیا تو کچھ عرصہ بعد کرفیو سے بھی کام نہیں چلے گا۔ پتا نہیں ہمارے حکمران بھوک اور غربت کے فرق کو کب سمجھیں گے۔

پاکستان میں غربت انتہاؤں پر ہے لیکن ہماری اقدار کی وجہ سے بھوک سے کوئی مرا ہے اور نہ مرے گا۔ جان ہے تو جہان ہے۔ زندگیاں بچ جائیں تو پھر غربت سے بھی نمٹ لیں گے لیکن اگر زندگی نہ رہی تو غربت کو کیسے ختم کریں گے؟

ایک طرف لاک ڈاؤن کا آپشن ہے اور دوسری طرف تباہی اور لاشوں کے انبار کا،  حکمرانوں کی مرضی ہے کہ کس آپشن کو اپناتے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔