14 جون ، 2020
اخبار اشک بار ہیں، سوشل میڈیا پر نوحہ خوانی ہورہی ہے، موت ہمیں للکاررہی ہے، ہماری لاپروائی، حکمرانوں کی بے بصیرتی سے پڑتے شگافوں کے ذریعے ہماری بستیوں میں داخل ہورہی ہے، ہمارے بزرگوں، جوانوں، ڈاکٹروں، پولیس افسروں، فوجیوں، ادیبوں، شاعروں کو اٹھاکر نامعلوم منزلوں کو لے جارہی ہے، کیا ہم کورونا کے سامنے ہتھیار ڈال دیں۔
نہیں! ہمیں یہ نہیں سکھایا گیا، زندگی اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے، ہم اسے کورونا کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیں گے، کورونا کو شکست دینے والی قومیں ہمیں راہ دکھارہی ہیں، ہم اپنے ہم وطنوں کو بے وقت موت سے بچائیں گے، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
صورتحال بہت تشویشناک ہے، میرے ڈیڑھ لاکھ ہم وطن کورونا سے متاثر ہیں، صحت یاب صرف 40ہزار، بیمار زیادہ ہیں، ڈھائی ہزار بھائی بہنیں اپنے خاندانوں کو روتا ہوا چھوڑ کر جاچکے ہیں، ایسے میں یہ کون لوگ ہیں جو اپنی سیاسی لڑائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
میڈیا یہ محاذ آرائی کیوں دکھارہا ہے، ایک ہلاکت خیز وبا کا مقابلہ کرتی جفاکش قوم کو حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے، اس طرح تو فروری سے رات دن زندگی بچانے والے ڈاکٹروں نرسوں، میڈیکل اسٹاف کے حوصلے بہت پست ہوسکتے ہیں، اگلے محاذوں پر لڑنے والوں کے لیے تو ہمارے ہاں رزمیے پڑھنے کی روایت ہے، ان کی سپلائی لائن کی حفاظت کی جاتی ہے، ان کے لیے دوسری دفاعی لائن بنائی جانی ہے۔
اسپتالوں میں لڑی جانے والی پاکستان کی سا لمیت کی جنگ میں سرخروئی کے لیے اولیں ترجیح ملک میں خیر سگالی کی فضا کا قیام ہے تاکہ ہم سب یکسو ہوکر کورونا کی یلغار روک سکیں۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں کی صفوں میں کورونا گھسنے میں کامیاب ہوچکا ہے، قیمتی جانیں جارہی ہیں۔ ہمارے بھائی بہن سانس لینے میں مشکلات محسوس کررہے ہیں۔ یہ پیغمبری وقت ہے۔ بھلادیں سب اختلافات، حکومت اور اپوزیشن کے ترجمان صرف اور صرف، احتیاطی تدابیر بناتے، کورونا کی شکست میں کامیابیاں بتاتے نظر آئیں، اپنی تلواریں کورونا کے خلاف سونتیں۔ یہ وبا نہیں دیکھ رہی کہ کون حکومت میں ہے کون اپوزیشن میں۔
ویسے بھی احتسابی کارروائیاں طوالت کا شکار ہیں۔ کیا ہی بہتر ہو کہ ایسے سب اقدامات 3ماہ کے لیے سرد خانے میں ڈال دیے جائیں۔ نیب بھی 3ماہ تک اپنے بگٹٹ گھوڑوں کو لگام دے۔ زیر سماعت مقدموں کے سب ملزمان کو گھر جانے دیں۔ جیلوں میں بھی ہجوم کم کریں۔ معمولی جرمانے نہ دے سکنے والوں کو عام معافی دے دی جائے۔ صرف سنگین مقدمات کے سزا یافتگان کو سلاخوں کے پیچھے رہنے دیں۔
سوچئے کہ اس عام معافی سے ملک میں کتنی خوشگوار فضا پیدا ہوگی۔ وبا سے مقابلے کے لیے کتنی سازگار تاریخ اور جغرافیہ دونوں دیکھ رہے ہیں کہ مخصوص ایجنڈا لے کر آنے والے حکمراں سخت پریشان ہیں کہ وہ جن مقاصد کے لیے آئے تھے کورونا ان کے حصول میں سب سے بڑی رُکاوٹ بن گیا ہے۔ انسانی خدمت کے لیے بر سر اقتدار آنے والے تدبر سے کام لے رہے ہیں۔
آسمان کی آنکھ دیکھ رہی ہے کہ واہگہ سے گوادر تک عام پاکستانی عمران خان سے سخت ناامید ہوچکا ہے اور وہ محسوس کررہا ہے کہ موجودہ حکمران اس وبا کی ہلاکت خیزیوں کا ادراک نہیں رکھتے۔ انہیں قوموں نے ترقی کی ہے جہاں معاشرے آگے نکل گئے ہیں۔ حکومتیں بہت پیچھے رہ گئی ہیں۔ پاکستان میں بھی یونیورسٹیوں۔ دینی مدارس۔ تحقیقی اداروں اور پروفیشنل تنظیموں کو آگے آنا ہوگا۔ جیسے اس وقت ڈاکٹری میں پرائیویٹ اسپتال قیادت کررہے ہیں۔
یہ ہم پاکستانیوں کا مقدر نہیں ہے کہ کبھی آمروں۔ کبھی لٹیروں اور کبھی نا اہلوں کے ہاتھوں تباہ و برباد اور ہلاک ہوتے رہیں۔ اللہ نے ہمیں وسائل دیے ہیں۔ حوصلہ اور عقل و دانش عطا کیا ہے۔ وبا کو محدود اور بالآخر ختم کرنے میں سب سے موثر حکمت عملی ملائیشیا میں نظر آئی جہاں شہروں میں آبادی بہت گنجان ہے۔
متاثرین یہاں 8338۔ صحت یاب 7014رہے۔ اموات صرف 118۔18فروری سے یہاں کورونا سے جنگ شروع ہوئی۔ قومی۔ صوبائی اور مقامی حکومتوں میں اشتراک عمل مثالی تھا۔ کورونا سے متاثرہ تعداد کے تناسب سے ملک کو ریڈ(سرخ)۔ یلو(پیلا)۔ اور گرین(سبز) زونوں میں تقسیم کیا گیا۔ 40متاثرین والا علاقہ ریڈ زون قرار پایا۔ سارے وسائل یہاں صرف کردیے گئے۔ وہاں سے کسی کو باہر جانے دیا گیا نہ کسی کو اندر آنے دیا گیا۔ پیلا علاقہ 40سے کم متاثرین والا۔ گرین بالکل پاک۔ یہاں کاروبار جاری رہا۔ مرکزی اقدام تھا۔ نقل و حرکت پر قابو۔ Movement Control Order ۔ اس کے لیے بہت سختی کی گئی۔
میرے خیال میں یہی حکمت عملی اس وبا کی بڑھتی ہوئی یلغار روک سکتی ہے۔ اسلام آباد اپنی ضد چھوڑے۔ اپنے آپ کو عقل کُل نہ سمجھے۔ وفاق۔ صوبے آپس میں تعاون کریں۔ صوبائی حکومتیں مقامی حکومتوں کو اپنا دشمن نہ سمجھیں۔ ان کو فیصلوں میں شریک کریں۔
آزاد کشمیر میں متاثرین 534۔ صحت یاب 237۔ اموات 10ہیں۔ گلگت بلتستان میں 1030متاثرین۔ صحت یاب 673۔ اموات 15۔ ان دونوں اکائیوں کو ہم مل جل کرجلد از جلد کورونا سے پاک علاقہ قرار دے سکتے ہیں۔
ان کے بعد بلوچستان جہاں متاثرین 7673۔ صحت یاب 2673۔ اموات 75۔ بلوچستان کو بھی خصوصی توجہ سے وفاق اور صوبہ مل کر کورونا فری کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد کے پی جہاں متاثرین 15787۔ صحت یاب 3907۔ اموات 632ہیں۔ یہ تشویشناک ہے۔ الگ الگ زون بناکر کارروائی کی جائے۔
سندھ میں متاثرین 46828۔ صحت یاب 22047۔ اموات 776۔ یہاں کراچی میں حالات بہت خراب ہیں۔ ہر جگہ زون بنانے کی ضرورت ہے۔ پنجاب میں 47382متاثرین۔صحت یاب صرف 9546۔ اموات 890ہیں۔ ہر علاقہ ایک ہی طرح متاثر نہیں ہے۔ اس لیے زوننگ ہی اس منزل تک لے جاسکتی ہے۔ جہاں کورونا سے مکمل تطہیر کا اعلان کیا جاسکے گا۔ عزم یہ ہو کہ جو دوسری قومیں کرسکتی ہیں ہم بھی کرسکتے ہیں۔
معاشرے کو آگے آنا ہوگا۔ فروری سے اب تک وفاقی حکومت کی کارگزاری ہمارے سامنے ہے۔ عمران خان تو جولائی اگست سے ڈرارہے ہیں۔ 14اگست انگریز اور ہندو سے آزادی کا دن۔ کورونا سے بھی آزادی کا دن بن سکتا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔