18 جون ، 2020
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کو ویڈیو لنک کے ذریعے بیان دینے کی اجازت دے دی جس کے بعد انہوں نے اپنا بیان ریکارڈ کرادیا۔
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے کی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے گھر پر ویڈیو لنک کے انتظامات کرا رہے ہیں، ہماری درخواست ہے کہ جج صاحب کہ اہلیہ مختصر بات کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ہمارے لیے قابل احترام ہیں، ویڈیو لنک کے ذریعے بیان دیتے وقت مناسب الفاظ کا استعمال کریں، جج صاحب کی اہلیہ عدالتی ڈیکورم کا خیال رکھیں، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ ہمارے سامنے فریق نہیں ہے۔
بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے بیان ریکارڈ کرایا۔ ویڈیو لنک پر اپنے بیان میں سیرینا کیریرا کھوسو نے کہا کہ وہ ہسپانوی ہیں، ان کے پاس اسپینش پاسپورٹ ہے ، وہ 2018 میں جمع کرائے گئے ٹیکس ریٹرنز میں تینوں متعلقہ پراپرٹیز کا ذکر کر چکی ہیں جن پر بات ہو رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پہلی پراپرٹی 2004 میں انہوں نے اپنے نام پر خریدی، 2013 میں 2 لاکھ 43 ہزار پاؤنڈز کی پراپرٹی خریدی، وہ پاکستان اور برطانیہ دونوں ملکوں میں ٹیکس ادا کرتی ہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ میرا نام شناختی کارڈ پر سرینا عیسیٰ ہے، میری والدہ اسپینش ہیں ، میرے پاس اسپینش پاسپورٹ ہے۔
فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے کہا کہ الزام لگایاگیا کہ میں نے جج کے آفس کا غلط استعمال کیا، جب میراخاوند وکیل تھا تومجھے پاکستان کا 5سال کا ویزا جاری ہوا، قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ مؤقف دیتے ہوئے آبدیدہ بھی ہوگئیں۔
انہوں نے بتایا کہ 2009 سے پہلے ان اکاؤنٹس میں 6 لاکھ پاؤنڈ ٹرانسفر کیے گئے تھے،2003 سے 2013 کے دوران دو غیرملکی اکاؤنٹس کے ذریعے 7 لاکھ پاؤنڈ ٹرانسفر کیے، اکاؤنٹس اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کراچی میں کھولے گئے۔
قبل ازیں فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بدنیتی پر فائنڈنگ دینے پرکونسل کے سامنے کوئی چیز مانع نہیں، جوڈیشل کونسل بدنیتی کے ساتھ نیک نیتی کا بھی جائزہ لے سکتی ہے، جوڈیشل کونسل کے سامنے تمام فریقین ایک جیسے ہوتے ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدلیہ پر چیک موجود ہے، کسی جگہ بدنیتی ہو تو عدالت جائزہ لینے کے لیے بااختیار ہے، عدالت اپنے اختیارات پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا عدالت اورکونسل کے بدنیتی کے تعین کے نتائج ایک جیسے ہوں گے؟
بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ کونسل بدنیتی پر آبزرویشن دے سکتی ہے، عدالت کو بدنیتی پر فائنڈنگ دینے کا اختیار ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا کہ کیا کونسل صدرمملکت کے کنڈکٹ کا جائزہ لے سکتی ہے؟ جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ کونسل کسی کے کنڈکٹ کا بھی جائزہ لے سکتی ہے، کونسل کے پاس ہر اتھارٹی ہے۔
جسٹس سجادعلی شاہ نے پوچھا کہ کیا عدالت عظمیٰ کے بدنیتی کے معاملے کا جائزہ لینے میں کوئی رکاوٹ ہے؟ جس پر حکومتی وکیل نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے راستے میں بدنیتی کا جائزہ لینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ شوکاز نوٹس میں 3 نکتے جوڈیشل کونسل نے شامل کیے، جوڈیشل کونسل نے ریفرنس کا جائزہ لیکر الزام کے تین نکات نکالے، عدلیہ کو شوکاز نوٹس کے مواد کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے استفسار کیا کہ اس دلیل کی سپورٹ میں آرمی چیف کیس کا حوالہ کیوں دیا؟ جس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ آرمی چیف کا مقدمہ درخواست واپس لینے کی استدعا کے باوجود بھی چلا۔
جسٹس عمرعطابندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ آرڈر 23 کا اصول ہے کہ درخواست عدالت کی اجازت کےبغیر نہیں لی جا سکتی، کیا ریفرنس کالعدم ہوجائے تو پھر بھی اپنی جگہ زندہ رہے گا؟
فروغ نسیم نے کہا کہ میری بصیرت کےمطابق یہی دلیل ہے کہ ریفرنس کے بعد بھی شوکاز ختم نہیں ہوتا، سپریم کورٹ نے ازخودنوٹس کا حکم پاس نہیں کیا لیکن آرمی چیف کا مقدمہ چلا۔
انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کونسل تمام 28 سوالات پر آبزرویشن دینے کی مجاز ہے، صدر مملکت کی رائے کا کونسل جائزہ لے سکتی ہے، صدر مملکت کی رائے کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہوتی۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اعتراض یہ ہے کہ ریفرنس میں قانونی نقائص اور بدنیتی ہے، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ قانون کہتا ہے کہ کم معیار کے ساتھ بھی کام چلایا جا سکتا ہے۔
جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ آپ کے مطابق عدالت عظمیٰ کے جج کے ساتھ کم معیار کے ساتھ کام چلایا جائے، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ آرٹیکل 209 میں شاہد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جج کو ہٹانے کی کارروائی میں شواہد کامعیار دیوانی مقدمات جیسا نہیں ہونا چاہیے، جج کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی کے لیے ٹھوس شواہد ہونے چاہئیں۔
انہوں نے حکومتی وکیل سے کہا کہ برائے مہربانی مثال دیتے ہوئے احتیاط کریں، عدالت یہاں آئینی معاملے کا جائزہ لے رہی ہے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ کونسل نے بھی اپنا مائنڈ اپلائی کر کے شوکاز نوٹس کیا، جج نےتحریری جواب دیکر جوڈیشل کونسل کے سامنے سرنڈر کر دیا، ریفرنس کےمعاملے پر صدر کے بعد جوڈیشل کونسل اپنا ذہن اپلائی کرتی ہے، کونسل شوکاز نوٹس کرنے سے پہلے اور بعد میں بھی ریفرنس کا جائزہ لیتی ہے۔
حکومتی وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے ریفرنس کے حوالے صدرکوبھجوائی گئی سمریوں کا ریکارڈ سپریم کورٹ میں پیش کر دیا۔
فروغ نسیم نے کہا کہ تشدد کے بغیر حاصل مواد قابل قبول دستاویز ہیں، امریکا میں چوتھی ترمیم کے مطابق شواہد کی تلاش قانونی ہیں، پاکستان اور بھارت میں امریکا کی چوتھی ترمیم جیسی مثال نہیں ہے، برطانیہ میں جاسوسی اورچھپ کر تصویر بنانے کو قابل قبول شواہدقرار دیا گیا ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آئین آزادانہ نقل و حرکت، وقار، ذاتی عزت و تکریم کا تحفظ فراہم کرتا ہے، ہمارے ملک میں ایف بی آر، نادرا اور ایف آئی اے جیسے دیگرادارے موجود ہیں۔
انہوں نے مزید کہا آپ کہہ رہے ہیں کہ میری جاسوسی ہوسکتی ہے، میں گالف کلب جاتا ہوں میری تصاویر لی جاتی ہیں، یہ توایسے ہی ہو گا کہ جمہوریت سے فاش ازم کی طرف بڑھا جائے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ میں فاش ازم کی بات نہیں کر رہا، یہاں بات شواہد کے اکٹھا کرنے کی ہو رہی ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس سے غرض نہیں کہ پبلک ڈومین میں جائیدادیں پڑی ہیں یا نہیں، ان جائیدادوں کو ڈھونڈنے کے اختیارات کہاں سے لیے گئے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا سوال یہ ہےکہ کس طرح سے پتہ چلا کہ لندن میں جائیدادیں ہیں، آؤ جائیدادیں ڈھونڈیں،آؤ جائیدادیں ڈھونڈیں کا اختیار کہاں سے حاصل کیا گیا؟
فروغ نسیم نے کہا کہ صحافی کی طرف سے معلومات آگئیں تو اس کی حقیقت کا پتہ چلایا گیا، جس پر جسٹس منصور علی شا ہ نے کہا کہ صحافی نے کوئی آرٹیکل نہیں لکھا جس کا وہ ذریعہ چھپائے، صحافی آرٹیکل یا خبر دیں تو ذریعہ نہیں پوچھ سکتے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا میری تشویش یہ ہےکہ شواہد کی تلاش کیسے کی گئی، یہ کوئی نہیں کہتا کہ جج جوابدہ نہیں ہے، جج چاہتا ہےکہ میری پرائیویسی بھی ہو اور میری عزت کا خیال بھی رکھا جائے، میں تو کہتا ہوں جو کرنا ہے قانون کے مطابق کریں۔
حکومتی وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ پرائیویسی کا حق محدود ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جمہوری معاشروں میں قانون ترقی کرتا ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ ضیاءالمصطفی نامی شخص کے پاس اختیارنہیں تھا کہ نجی جاسوس کی خدمات حاصل کرے، شکایت کنندہ کی درخواست میں صرف ایک جائیداد کا ذکر تھا، صدر کی منظوری کے بغیر کسی جج کے خلاف مواد اکٹھا نہیں ہو سکتا۔
فروغ نسیم نے کہا کہ برطانیہ نے تمام جائیدادوں کی تفصیل ڈال دی ہے، جج نے بھی تسلیم کیا کہ برطانیہ کی جائیداد ویب سائٹ پر موجود ہے، برطانیہ کی جائیداد کی درست معلومات کے لیے لینڈرجسٹری کی ویب سائٹ استعمال کی جاتی ہے، ویب سائٹ سے معلومات لینے سے سیکریسی کے حق کا اطلاق نہیں ہوتا۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ متعلقہ جج کی اہلیہ کا درست نام ہمیں معلوم نہیں، حکومت کو اہلیہ کے درست نام کا کیسے پتہ چلا؟ بنیادی سوال یہ ہےکہ حکومت کے پاس اختیار کہاں سے آیا؟
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کیا حکومت نے وحید ڈوگر سے پوچھاکہ وہ معلومات کدھر سے لےکر آئے ہیں؟ جب کہ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ وحید ڈوگر کو کیسے پتہ چلا کہ یہ جائیدادیں گوشواروں میں ظاہر نہیں کی گئیں۔
فروغ نسیم نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ وحید ڈوگر کو یہ معلومات کدھر سے ملیں، آرٹیکل 184 تین کے مقدمے میں عدالت معلومات کا ذریعہ نہیں پوچھتی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جج کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ عوام کی نظروں میں ہے، ہم ججز کو اس حوالے سے محتاط ہونا چاہیے، آپ کی ناک کے نیچے ضلعی عدلیہ میں کیا ہوتا ہے آپ کو علم نہیں، حکومت کے پاس بڑے وسائل ہوتے ہیں، اس معاملے پر عدالت کو ایکشن لینا پڑا۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا ہو سکتا ہے اس مقدمے میں اس بات کی تصحیح کریں، ملک میں احتساب کےنام پر تباہی ہو رہی ہے، احتساب کے نام پر جو تباہی ہو رہی ہے اس پر بھی لکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ تمام کارروائی کے بعد ڈوگر کو لاکر کھڑا کر دیا گیا، میں اپنی تفصیلات آرام سے نہیں لے سکتا تو ایک جج کی تفصیلات وحید ڈوگر کے پاس کیسے آئیں؟
جسٹس یحیٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ ایشو یہ ہے کب حکومت نے گوشوارے مانگے؟ جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ میں نے کسی سے گوشوارے نہیں منگوائے، اے آر یو نے معاملہ ایف بی آر کو بھیجا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ انجینئرنگ کے الزامات لگتے ہیں، مجھےافسوس ہےکہ اس میں ہمارے ادارے کو استعمال کیا گیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وزیراعظم کے پاس نئی وزارت بنانے کا اختیار ہے، وزیراعظم کے پاس نئی ایجنسی بنانے کا اختیار کہاں سے آیا؟
فروغ نسیم نے کہا کہ وزیراعظم کو کوئی بھی چیز کابینہ کو بھیجنے کا اختیار ہے، جس پر جسٹس یحیٰ آفریدی نے کہا کہ اے آر یو وفاقی حکومت کیسے ہو گئی؟ اے آر یو نے ایف بی آر سے ٹیکس سے متعلق سوال کیسے کیا؟
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اےآر یو کسی شہری کو قانون کے بغیر کیسے ٹچ کر سکتا ہے، جب کہ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ وزیراعظم کے اختیارات بھی کسی قانون کے مطابق ہوں گے۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ پراپرٹیز کی معلومات اوپن سورس سے آئی ہیں، برطانیہ کہتا ہے جائیداد کی معلومات اوپن ہے ہم سکریسی کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں، جو معلومات عوام کی دسترس میں ہوں وہ خفیہ نہیں ہیں۔
جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا کہ جائیداد کی معلومات کس طریقے سے حاصل کی گئیں؟ جس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جائیداد کی معلومات کوئی سکریسی نہیں ہے، حضرت علیؓ کے مطابق جج کی سرگرمیاں جاننےکے لیے انہوں نے جاسوسی کا نظام بنایا تھا، قاضیوں کے معاملات کی خبر گیری اسلامی تاریخ سے بھی رکھی جاتی تھی، اسلامی قانونی نکتے سے ہم اپنی آنکھیں موڑ نہیں سکتے، آئین کہتا ہے کہ تشریح کے لیے اسلامی شریعت کو دیکھا جائے، عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں لکھا ہےکہ حضرت عمر فاروقؓ سےبھی کُرتے کے بارے میں پوچھا گیا تھا، ہم میں سے کوئی حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ سے بڑا نہیں ہے۔
حکومتی وکیل نے کہا کہ کسی قسم کی منی ٹریل نہیں دی گئی، عدالت نے ایف بی آر کوبھیجنے کی تجویز دی تو انکار کر دیا گیا، درخواست گزار کہتے ہیں کہ دھرنا فیصلے کی وجہ سے کچھ حلقے خوش نہیں ہیں۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ دھرنا فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا جب کہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا نظرثانی کے مقدمے میں دونوں ججز کا ذکر نہیں ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے الزام ہے کہ نظر ثانی مقدمے میں جج کو ہٹانے کی بات کی گئی جب کہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا دھرنا فیصلے سے آسمان گر پڑا، اگر نظر ثانی خارج ہوتی ہے تو کیا آسمان گر پڑے گا۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ہماری نفسیات یہ بن چکی ہے ہم سچ سننا پسند نہیں کرتے، اپنا کام کرنے کی بھی آزادی نہیں دی گئی ہے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ درخواست گزار کے تمام الزامات بے بنیاد ہیں، مجھ پر اور انور منصور پر لگائے جانے والے الزامات غلط ہیں، ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دینا درست نہیں ہے۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ بدنیتی میں پس پردہ مقصد ہونا چاہیے، پس پردہ ایسا مقصد جو قانون سے باہر ہو، قانون میں کچھ اقدام ہیں جو بدنیتی پر انحصار کرتے ہیں، بدنیتی میں آسانی سے نہ الزام لگ سکتا ہے نہ ثابت ہو سکتا ہے، حکومت کی بدنیتی نظر آئے گی جب قانون سے باہر کام ہو گا، لگتا ہے کچھ الماری میں پڑا تھا جس کے استعمال کرنے کا انتظار تھا۔
فروغ نسیم نے کہا کہ وحید ڈوگر کی شکایت میں تین ججز کے خلاف الزام تھا، یہ دلیل درست نہیں کہ ریفرنس کی منظوری کابینہ سے لینا ضروری تھی، آرٹیکل 209 میں وفاقی حکومت کا ذکر نہیں ہے، ایف بی آر جانے کی تجویز دی وہ بھی ٹھکرا دی گئی۔
حکومتی وکیل نے کہا کہ قانون شہادت کے تحت ثبوت چھپانا بھی جرم ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ قانون سے باہر کام کیا جائے تو وہ بھی بدنیتی ہوتی ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ریفرنس کی سمری پر رائے صدر مملکت نے آزادانہ طور پر طےکرنی ہے جب کہ بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ سیکرٹری قانون سے لےکر اوپر تک سب نے اپنا مائنڈ اپلائی کیا۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ صدر مملکت کو رائے بنانے کی ضرورت نہیں ہے، صدر مملکت صرف اپنا ذہن اپلائی کرتے ہیں، صدر مملکت کے سامنے کوئی مواد نہیں تھا، الزامات پر مبنی دستاویزات تھیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے آج جج صاحب کی اہلیہ کا موقف بھی سننا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ عدالت کا حکم میں نے پہنچا دیا تھا، اہلیہ الزامات کے حوالے سے جواب دیں گی، امید کرتاہوں جج صاحب کی اہلیہ کا جواب زیادہ طویل نہیں ہو گا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا اہلیہ صرف جائیداد کے حوالے سے جواب دیں گی؟ جس پر منیر اے ملک نے کہا کہ اہلیہ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا جواب دیں گی، میں اہلیہ کا وکیل نہیں ہوں، میری حیثیت پیغام رساں کی ہے۔