19 جون ، 2020
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے اپنے مختصرفیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس خارج کر دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے چار بجے سنائے گئے اپنے مختصر فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریفرنس کالعدم قرار دینے کی درخواست منظور کرلی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دینے کا فیصلہ تمام 10 ججز متفقہ کاہے۔
7 ججز نے قاضی فائز کی اہلیہ کے ٹیکس معاملات فیڈرل بورڈ آف ریوینو (ایف بی آر) کو بھیجنے کا حکم دیا جبکہ ایک جج جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریفرنس کیخلاف قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست ناقابل سماعت قرار دی۔ ریفرنس کاالعدم قرار دینے کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
فیصلے کے مطابق 7 جج صاحبان نے ٹیکس معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کا حکم دیا ہے، انکم ٹیکس کمشنر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کو نوٹس جاری کرے گا، انکم ٹیکس کمشنر 60 روز میں ٹیکس معاملے سے متعلق کارروائی مکمل کرے گا۔
'ایف بی آر نے اب تک جو کارروائی کی ہے عدالت اسے کالعدم قرار دیتی ہے '
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور وکلاء تنظیموں کی آئینی درخواستوں کی مجموعی طور پر 46سماعتیں کیں۔
جمعہ کی شام سوا4 بجے مختصر حکم سناتے ہوئے عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دیا۔
عدالت نے اپنے حکم میں قرار دیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچے لندن کی تینوں جائیدادوں کے حوالے سے ذرائع اور وسائل کے بارے میں ایف بی آر میں وضاحت دیں۔ ایف بی آر اس حوالے نوٹس کسی بھی ذریعے سے درخواست گزار جج کے اسلام آباد گھر پر بھجوائےگا۔
عدالت نے اپنے حکم میں یہ بھی قرار دیا ہے کہ اس حوالے سے ایف بی آر نے اب تک جو کارروائی کی ہے عدالت اسے کالعدم قرار دیتی ہے ۔
7 ججز نے اپنے حکم میں قرار دیا کہ ایف بی آر میں بغیر التوا کارروائی مکمل ہونے کے بعد تمام ریکارڈ رجسٹرار سپریم کورٹ کو بھیجا جائے جو فوری طور پر تمام ریکارڈ چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد جو کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین بھی ہیں، انہیں پیش کرے، اگر سپریم جوڈیشل کونسل ریکارڈ کے جائزے کے بعد مناسب سمجھتی ہے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ازخود کارروائی کا اختیار رکھتی ہے۔
جسٹس عمر عطابندیال ، جسٹس منظور احمد ملک ،جسٹس فیصل عرب،جسٹس مظہر عالم میاں خیل ،جسٹس سجاد علی شاہ ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی امین نے قرار دیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور ان کے بچوں کے بیرون ملک جائیدادوں کے حوالے سے انکم ٹیکس آرڈیننس2001 کے تحت اسلام آباد میں 60 دن میں کارروائی مکمل کی جائے ۔
عدالتی فیصلے کے مطابق فل کورٹ کے ایک جج جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست مسترد کی تاہم بار ایسوسی ایشنز کی ریفرنس کالعدم قرار دینے کی استدعا منظور کر لی۔
تین ججز جسٹس مقبول باقر ، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نےعلحیدہ آرڈر دیا ہے اور صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دینے کا ڈیکلریشن جاری کیا اور قرار دیا کہ وہ اس حوالے سے تفصیلی فیصلے میں ڈائریکشن بھی جاری کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
آج بھی سپریم کورٹ میں 10 رکنی لارجر بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر سماعت ہوئی جس میں وفاق کے وکیل فروغ نسیم نے ایف بی آر کے دستاویز سر بمہر لفافے میں عدالت میں جمع کرائیں۔
جب کہ ایف بی آر کی جانب سے بھی جسٹس قاضی کی اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ عدالت میں جمع کرایا گیا۔
فروغ نسیم کے ریکارڈ پر بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم ابھی اس لفافے کا جائزہ نہیں لیتے اور نہ ہی اس پرکوئی آرڈر پاس کریں گے، معزز جج کی بیگم صاحبہ تمام دستاویز ریکارڈ پر لاچکی ہیں، آپ اس کی تصدیق کروائیں، ہم ابھی درخواست گزار کے وکیل منیر ملک کو سنتے ہیں۔
اس دوران جسٹس قاضی فائز کے وکیل منیر اے ملک نے بھی سر بمہر لفافے میں دستاویزات عدالت میں پیش کردیں۔
اس کے علاوہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے زرعی زمین اور پاسپورٹ کی نقول بھی جمع کرائیں۔
بد قسمتی سے فروغ نسیم غلط بس میں سوار ہوگئے ہیں، منیر اے ملک کے دلائل
منیر اے ملک نے اپنے جوابی دلائل میں کہا کہ افتخار چوہدری کیس میں سپریم جوڈیشل کونسل پربدنیتی کے الزامات تھے، فروغ نسیم نے کہا ان کا اصل کیس وہ نہیں جو ریفرنس میں ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کبھی اہلیہ کی جائیدادیں خود سے منسوب نہیں کیں، الیکشن اور نیب قوانین میں شوہر اہلیہ کے اثاثوں پر جوابدہ ہوتا ہے، فروغ نسیم نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ آنے میں دیر کردی، بد قسمتی سے فروغ نسیم غلط بس میں سوار ہوگئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ایف بی آر جانے کے بجائے سپریم جوڈیشل کونسل آگئی، ایف بی آر اپنا کام کرے ہم نے کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اور عدلیہ کی عزت کی خاطر ریفرنس چیلنج کیا، چاہتے ہیں کہ عدلیہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دے۔
منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے احکامات اور شوکاز نوٹس میں فرق ہے، سپریم جوڈیشل کونسل صدر کے کنڈکٹ اور بدنیتی کا جائزہ نہیں لے سکتی، کونسل کا کام صرف حقائق کا تعین کرنا ہے۔
جسٹس قاضی کے وکیل نے مزید کہا کہ وزیر اعظم کوکوئی نیا ادارہ یا ایجنسی بنانے کا اختیار نہیں، اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی تشکیل کیلئے رولز میں ترمیم ضروری تھی، اثاثہ جات ریکوری یونٹ کے ٹی او آرز قانون کیخلاف ہیں، باضابطہ قانون سازی کے بغیر اثاثہ جات ریکوری یونٹ جیسا ادارہ نہیں بنایا جاسکتا۔
حکومت صرف فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ لکھنے والے جج کو ہٹانا چاہتی ہے، منیر ملک
منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ جو ریلیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چاہیے وہ جوڈیشل کونسل نہیں دے سکتی، لندن جائیدادوں کی تلاش کے لیے ویب سائٹ کو استعمال کیا گیا، اس ویب سائٹ پرسرچ کرنے کیلئے ادائیگی کرنا پڑتی ہے، آن لائن ادائیگی کی رسید ویب سائٹ متعلقہ بندے کو ای میل کرتی ہے، جن سیاسی شخصیات کی جائیداد سرچ کی گئیں اس کی رسیدیں بھی ساتھ لگائی ہیں، حکومت رسیدیں دے تو سامنے آجائیگا کہ جائیدادیں کس نے سرچ کیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کہتی ہے کہ دھرنا فیصلے پر ایکشن لینا ہوتا تو دونوں ججز کے خلاف لیتے، حکومت صرف فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ لکھنے والے جج کو ہٹانا چاہتی ہے۔
جسٹس قاضی فائز کے وکیل کے جوابی دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا جسے کچھ دیر بعد سنادیا گیا۔
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ہائی کورٹ کے 2 ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر رکھے ہیں۔
حکومتی ذرائع کے مطابق ان ججز میں لاہور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے ایک، ایک جج بھی شامل تھے۔
لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج فرخ عرفان چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کے دوران استعفیٰ دے چکے ہیں اس لیے ان کا نام ریفرنس سے نکال دیا گیا ہے۔
پہلے ریفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ اور کے کے آغا پر بیرون ملک جائیداد بنانے کا الزام عائد کیا گیا۔ صدارتی ریفرنسز پر سماعت کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 14 جون 2019 کو طلب کیا گیا تھا، اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے گئے تھے۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز کی سماعت اختتام پذیر ہوچکی ہے۔ ذرائع کے مطابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جواب کا جواب الجواب کونسل کے اجلاس میں جمع کرا دیا ہے، کونسل اٹارنی جنرل کے جواب کا جائزہ لینے کے بعد حکم جاری کرے گی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا جس کو کونسل نے خارج کردیا تھا۔
اس کے بعد عدالت عظمیٰ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر کی جانب سے صدارتی ریفرنس کو چیلنج کیا گیا اور اس پر فل کورٹ سماعت کررہا تھا جس نے آج فیصلہ سنادیا ہے۔