فائز عیسیٰ سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ احسن ہے، شہزاد اکبر

وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ  حکومت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے فیصلے سے مطمئن ہے اور یہ کسی کی جیت یا ہار نہیں اس کو کسی اور رنگ میں پیش کرنا غلط ہے۔ 

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل واحد ادارہ ہے جو اعلیٰ عدلیہ سے متعلق انکوائری کرسکتا ہے اور جو ریفرنس بھیجا گیا تھا وہ جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے لندن میں 3 فلیٹوں سے متعلق تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایک شارٹ آرڈر پاس کیا گیا، اس میں کچھ چیزوں کے سمجھنے کی ضرورت ہے، صدارتی ریفرنس کو چیلنج کیا گیا تھا اور ہر ادارے کا جوابدہی کا اپنا طریقہ کار ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ آئین کے تحت تین صورتیں ہیں جس میں جج سے متعلق سوال اٹھایا جاسکتا ہے، ایک طریقہ یہ کہ کوئی بھی شخص سپریم جوڈیشل کونسل کو معلومات بھیج سکتا ہے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے صدر مملکت ریفرنس بھیج سکتے ہیں جب کہ تیسرا آپشن سپریم جو ڈیشل کونسل از خود نوٹس لے سکتی ہے۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ صدارتی ریفرنس کو سپریم کورٹ کے فل بینچ نے کالعدم قرار دے دیا اور اس ریفرنس کے تحت جاری کیے گئے شوکاز نوٹس کو بھی کالعدم قرار دیا گیا، ان دونوں چیزوں کو فیصلے کے باقی مضمرات کے تابع کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کو نوٹس بھیجے جائیں گے اور یہ نوٹس لندن کے فلیٹس سے متعلقہ ہوگا، 75 دن کے اندر کمشنر اپنی رپورٹ مرتب کرے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ عدالت نے فیصلہ دیا کہ 60 روز کے اندر متعلقہ کمشنر ان لینڈ ریونیو انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت جج کی اہلیہ اور بچوں کے خلاف نوٹس ایشو کریں گے اور 60 دن میں کمشنر ان لینڈ ریونیو تمام ڈاکومنٹس کی رپورٹ تیار کرنے کے لیے سنوائی کرے گا اور کمشنر ان لینڈ 75 دن میں چئیرمین ایف بی آر کو رپورٹ پیش کرے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ آرڈرکے پیراگراف 9 کے مطابق 7 دن میں چیئرمین ایف بی آر کی دستخط شدہ رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجیں گے، اس رپورٹ کو سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ یعنی چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے رکھا جائے گا، جو رپورٹ ایف بی آر کی طرف سے آئے گی سپریم جوڈیشل کونسل اس پر خود سے فیصلہ کرکےجج صاحب پرکارروائی کر سکتی ہے، اگر ایف بی آر رپورٹ نہیں بھیجے گی تو چیف جسٹس چئیرمین ایف بی آر سے جواب طلب کرسکتے ہیں۔

شہزاد اکبرکا کہنا تھا کہ فیصلے میں واضح کیا گیا کہ اس کیس کی تمام کارروائی آرٹیکل 209 کےازخود نوٹس کے دائرہ کار میں ہوگی، حکومت اس فیصلے سے مطمئن ہے اور یہ ایک احسن فیصلہ ہے، ہم شروع دن سے اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ ججز کے معاملات سپریم جوڈیشل کونسل کو دیکھنے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ فیصلہ آنے کے بعد ایسا ماحول بنایا گیا کہ یہ کسی کی جیت یا کسی کی ہار ہے، یہ کسی کی جیت یا ہار نہیں اس کو کسی اور رنگ میں پیش کرنا غلط ہے۔ 

معاون خصوصی نے کہا کہ ججز کے معاملات سے انتظامیہ اور حکومت کا کوئی تعلق نہیں، آئینی طور پر حکومت مطلع کرنے کی اہل تھی جب کہ قانونی کارروائی میں بہت سے معاملات آتے ہیں، اس قانونی کارروائی پر دوستوں نے بہت سوالات کیے جن کے جوابات موجود تھے لیکن حساس معاملے کی وجہ سے خاموش رہے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دینے کی درخواست منظور کرلی ہے اور ریفرنس کالعدم قرار دینے کا فیصلہ تمام 10 ججز کا متفقہ ہے۔

مزید خبریں :