پراپرٹی کیس: میر شکیل الرحمان کی درخواست ضمانت پر سماعت 7 جولائی تک ملتوی

جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان—فوٹو فائل

لاہور: ہائیکورٹ نے جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان کے خلاف پراپرٹی کیس میں ضمانت کی درخواست پر سماعت 7 جولائی تک ملتوی کردی۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شہباز رضوی اور جسٹس محمد سردار احمد نعیم پر مشتمل 2رکنی بینچ نے میر شکیل الرحمان کے34سال پرانے اراضی کے معاملے میں درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

دوران سماعت عدالت نے نیب کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا نیب نے جواب جمع کرا دیا ہے ؟ اس پر نیب کے وکیل سید فیصل رضا بخاری نےبتایا کہ مکمل جواب جمع کرا دیا ہے۔

بینچ کے سربراہ جسٹس شہباز رضوی نے کہا کہ میرے فیلو جج جسٹس محمد سردار احمد نعیم کی فائل میں نیب کے جواب کی کاپی موجود نہیں، نیب ہائیکورٹ آفس میں فائل کے ساتھ جواب لگا کر جمع کرائے اس کے بعد کیس سنیں گے۔

اس پر نیب کے پراسیکیوٹر فیصل رضابخاری نے بتایا کہ انہوں نے 4 کاپیاں جمع کرائی تھیں، اگر 4کاپیاں نہ ہوں تو ہائیکورٹ آفس جواب جمع نہیں کرتا۔

دورانِ سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ کیا میرشکیل الرحمان جسمانی ریمانڈ پر ہیں؟ جس پر میر شکیل الرحمان کے وکیل امجد پرویز نے بتایاکہ نہیں، انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوایا جا چکا ہے، نیب کے جواب کے مطابق میر شکیل الرحمان سے انوسٹی گیشن مکمل ہو چکی ہے۔

عدالت نے سوال کیا کہ7 اپریل کے بعد میر شکیل الرحمان کے خلاف کیا مواد ریکارڈ پر آیا؟ وکیل نے بتایاکہ بشیر احمد ڈائریکٹر لینڈ ڈویلپمنٹ اور ڈی جی ایل ڈی اے ہمایوں فیض رسول کے بیانات نیب حکام نے قلمبند کیے، نیب نے 1986 کے ایل ڈی اے کے دو افسروں کے بیانات بھی قلمبند کیے۔

ایڈووکیٹ امجد پرویز نے کہا کہ نیب نے گرفتاری سے قبل اپنے ہی بنائے گئے ایس او پیز کی خلاف ورزی کی، دوران تفتیش میر شکیل الرحمان سے کچھ برآمد نہیں ہوا، 34 برس قبل خریدی گئی پراپرٹی کے تمام شواہد نیب کو فراہم کر چکے ہیں۔

ایڈووکیٹ امجد پرویز نے استدعا کی کہ نیب نے مزید کچھ برآمد نہیں کرنا، میر شکیل الرحمان کوضمانت پر رہا کیا جائے۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے عدالت کو مزید بتایاکہ میر شکیل الرحمان کی والدہ کی عمر 96 برس ہے ،وہ بیمار ہیں، ان کی دیکھ بھال کرنا ہے حالانکہ درخواست گزار کے بڑے بھائی ان کی حراست کے دوران ہی وفات پاچکے ہیں، اب فیملی کی دیکھ بھال بھی درخواست گزارہی کو کرنا ہے۔ 

عدالت نے مختصر کارروائی کے بعد سماعت ملتوی کر دی۔

بعدازاں عدالت نے رجسٹرار آفس کو نیب کے جواب کی کاپیاں فائل کے ساتھ لگانے کا حکم دیتے ہوئے مزیدکارروائی 7 جولائی تک ملتوی کر دی۔

میر شکیل الرحمان کے کیس کا پس منظر

میر شکیل الرحمان نے 1986 میں لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں 54 کنال پرائیویٹ پراپرٹی خریدی، اس خریداری کو جواز بنا کر قومی احتساب بیورو (نیب) نے انہیں 5 مارچ کو طلب کیا، میرشکیل الرحمان نے اراضی کی تمام دستاویزات پیش کیں اور اپنا بیان بھی ریکارڈ کروایا۔

نیب نے 12 مارچ کو دوبارہ بلایا، میر شکیل انکوائری کے لیے پیش ہوئے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

آئینی اور قانونی ماہرین کے مطابق اراضی کی دستاویزات کی جانچ پڑتال کے دوران اُن کی گرفتاری بلا جواز تھی کیونکہ نیب کا قانون کسی بزنس مین کی دوران انکوائری گرفتاری کی اجازت نہیں دیتا۔

لاہور ہائیکورٹ میں دو درخواستیں، ایک ان کی ضمانت اور دوسری بریت کے لیے دائرکی گئیں، عدالت نے وہ درخواستیں خارج کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ مناسب وقت پر اسی عدالت سے دوبارہ رجوع کر سکتے ہیں۔

مزید خبریں :