25 جون ، 2020
فاسٹ بولر جنید خان کا کہنا ہے سینٹرل کنٹریکٹ نہ ملنے کا دکھ نہیں ہوتا ٹیم میں منتخب نہ ہونے کا دکھ ہوتا ہے، اس مرتبہ بھی مایوسی ہوئی جب دورہ انگلینڈ کے لیے 29 کھلاڑیوں میں بھی میرا نام نہیں آیا۔
بائیں ہاتھ کے 30 سالہ فاسٹ بولر جنید خان نے 2011ء میں اپنے انٹر نیشنل کیرئیر کا آغاز کیا اور وہ 2015ء تک تو پاکستان ٹیم کا مستقل حصہ رہے لیکن اس کے بعد انجری ہوئی پھر پاکستان ٹیم میں ان آؤٹ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
جنید خان نے 22 ٹیسٹ 76 ایک روزہ میچز اور 9 ٹی ٹوئنٹی میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے۔
جنید خان کا کہنا ہے کہ انگلینڈ میں میری کارکردگی ہمیشہ اچھی رہی ہے اور یہ اعداد و شمار سے بھی واضح ہے انگلینڈ میں کھیلنے کا تجربہ بھی سب بولروں سے زیادہ ہے لیکن پھر بھی میرا انتخاب نہیں ہوا ۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کہا گیا کہ ان کھلاڑیوں کو منتخب کیا گیا جن کا انگلینڈ میں کھیلنے کا تجربہ ہے جب کہ میرا تو سب سے زیادہ تجربہ ہے لیکن میرا دورہ انگلینڈ کے لیے 29 کھلاڑیوں میں بھی نام نہیں آیا جس کی وجہ سے مجھے مایوسی ہوئی۔
جنید خان کا کہنا ہے کہ سلیکشن کا معیار انگلینڈ میں پرفارمنس ہے تو میری پرفارمنس تو سب سے بہتر ہے، پاکستان ٹیم میں شامل کھلاڑیوں میں سب سے زیادہ کاؤنٹی کرکٹ میں کھیلا ہوں اگر انگلینڈ میں میری پرفارمنس کا جائزہ لیا جائے تو مجھے ٹیم کا حصہ ہونا چاہیے تھا ، اس پر دکھ ہوتا ہے لیکن زیادہ محنت کروں گا اور کوشش کروں گا کہ سیلیکٹرز کو متاثر کروں۔
جنید خان نے کہا کہ سینٹرل کنٹریکٹ نہ ملنے کا افسوس نہیں ہے کیونکہ میں اس سے پہلے بھی کنٹریکٹ میں نہ ہونے کے باوجود پاکستان ٹیم میں کھیلا ہوا ہوں اس کا مسئلہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2015ء میں انجری ہوئی اور وہ کھیل کا حصہ ہے جب انجری کے بعد واپس آیا تو مجھے مستقل نہیں کھلایا گیا کبھی پہلے میچز مل گئے تو کبھی آخری میچز ملے لیکن جب بھی کھلایا میں اچھا کھیلا جنید خان نے کہا کہ ان آؤٹ ہونے سے پریشر بڑھ جاتا ہے ہر میچ میں اچھا پرفارم کرنے کی کوشش میں آپ زور لگاتے ہیں جس سے انجری کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔
جنید خان نے کہا کہ نسیم شاہ اور شاہین آفریدی جیسے نوجوان فاسٹ بولرز کا آنا خوش آئند ہے اس سے مقابلے کی فضا بڑھتی ہے۔
جنید خان نے کہا کہ کورونا وائرس کے ساتھ کرکٹ کھیلنا مشکل ہوگا جہاں سختی سے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہو گا وہاں آئی سی سی کے نئے قوانین سےریورس سوئنگ کرنے والے فاسٹ بولرز کو مشکلات پیش آئیں گی۔
انہوں نے مزیدکہا کہ گاؤں میں رہ رہا ہوں، اس لیے سماجی فاصلوں کا خیال رکھنے میں آسانی ہے، کھیتوں کے اطراف پر رننگ کرتا ہوں اور گاؤں میں اپنی ایک چھوٹی سی اکیڈمی ہے، جہاں ٹریننگ کر لیتا ہوں۔