شہید اسامہ اور عمران خان

فوٹو فائل—

بےشک اسامہ بن لادن مسلمان دہشت گرد تھے۔ وہ القاعدہ کے سربراہ تھے۔ طالبان کے ساتھ بھی ان کا تعلق تھا۔ یہ بھی ممکن ہے نائن الیون کے حملوں میں وہ شریک ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انہی کی بدولت پاکستان کا امن اور نسلیں تباہ ہوئی ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اسلام کے فروغ کی جو تحریکیں مغرب میں چل رہی تھیں اسامہ کے جہادی نقطہ نظر سے انہیں نقصان پہنچا ہو مگر یہ طے ہے کہ وہ ایک مسلمان تھے، کسی مسلم ملک کی عدالت نے انہیں سزائے موت نہیں سنائی تھی۔ 

انہیں امریکی آرمی نے پاکستان آکر قتل کیا تھا جو پاکستانی قوانین بلکہ انٹرنیشنل قوانین کے مطابق بھی غلط ہے۔ چاہئے تھا کہ انہیں گرفتار کیا جاتا، عدالت جو سزا دیتی اس پر عملدرآمد کیا جاتا۔ یہ طے ہے کہ امریکی فوجیوں کا ایک سعودی مسلمان کو پاکستان میں آکر قتل کرنا مکمل طور پر غیر قانونی عمل تھا۔ سو اگر عمران خان کی زبان سے غلطی سے ہی ان کیلئے شہید کا لفظ نکل گیا ہے تو کوئی قیامت نہیں آ گئی۔ اسلامی قوانین اور پاکستانی قوانین کے مطابق انہیں شہید کہا جا سکتا ہے۔

عمران خان تو ہمیشہ سے’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں پاکستان کی شرکت داری کو ایک سنگین غلطی سمجھتے آ رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے مخالفین انہیں ’’طالبان خان‘‘ کہا کرتے تھے۔ وقت نے ذرا سی کروٹ لی ہے اور اس وقت اُنہی دہشت گرد طالبان کے ساتھ امریکا مذاکرات کی میز پر جلوہ افروز ہے۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ آج اگر اسامہ بن لادن زندہ ہوتے تو عین ممکن تھا کہ طالبان کی طرف سے مذاکرات کرنے والی ٹیم کے وہی سربراہ ہوتے۔

کچھ لوگ کہتے ہیں امریکا نے اُن کے سر قیمت مقرر کر رکھی تھی۔ اس لئے امریکی قانون کے مطابق انہیں قتل کیا جا سکتا تھا۔ یہ بالکل اسی طرح کا معاملہ ہے جیسے امام خمینی نے سلمان رشدی کے سر کی قیمت مقرر کر دی تھی۔ بےشک رشدی ایرانی قوانین کے تحت تو واجب القتل قرار پا گیا تھا مگر جب اسے برطانیہ یا امریکا میں کوئی ایرانی قتل کرتا تو اس کا ردعمل کیا ہوتا۔ یقیناً یورپ اور امریکا اسے آزادیٔ اظہار کے ہیرو کے طور پر پینٹ کرتا بلکہ اس کے گھٹیا ترین اور توہین آمیز ناول پر اُسے ادب کا نوبیل پرائز بھی دیدیا جاتا۔

سوشل میڈیا پر بھی زیادہ تر لوگوں نے عمران خان کی حمایت کی ہے یعنی پاکستانیوں کی اکثریت آج بھی اسامہ بن لادن کو حق پر سمجھتی ہے۔ ایک شخص نے لکھا ہے ’’اگر ارجنٹائن، کیوبا، بولیویا، گواٹیمالا اور میکسیکو میں سوشل ازم کے نام پر امریکا اور اُس کے اتحادیوں سے لڑنے والا چےگویرا ایک ہیرو ہے تو پھر اسلام کے لیے عرب، افریقہ اور افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں سے لڑنے والا اسامہ بن لادن ہیرو کیوں نہیں ہو سکتا‘‘۔ 

ایک اور شخص نے لکھا ہے ’’اسلام مخالف اور پاکستان مخالف قوتیں صرف اسامہ بن لادن کو شہید نہیں سمجھتیں‘‘۔ ایک اور ٹویٹ دیکھیں ’’ایک مسلمان جو کافروں کے ہاتھوں مر جائے آپ اسے شہید کیسے نہیں کہہ سکتے؟ حیرت کی بات یہ ہےکہ بھٹو شہید ہے لیکن اسامہ بن لادن شہید نہیں۔ آج علماء کیوں خاموش ہیں صرف اس لیے کہ یہ بات عمران خان نے کہی ہے؟‘‘

جہاں تک برطانوی اور امریکی ذرائع ابلاغ کی تنقید کا تعلق ہے تو ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ لیفٹیننٹ جنرل مائیکل او ڈائر جس نے جلیانوالہ باغ میں سینکڑوں نہتے مظاہرین کا قتل کرایا تھا جسے ایک ادھم سنگھ نامی بہادر نے برطانیہ جا کر قتل کیا تھا اور ہنس کرپھانسی چڑھ گیا تھا۔ وہ جنرل، برطانوی تاریخ کے ہیروز میں شمار ہوتا ہے۔ سو یہ کہنا چونکہ اسامہ بن لادن امریکا کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا اس لئے وہ شہید نہیں ہو سکتا، یہ کوئی بات نہیں۔ اس بات سے میں اتفاق کرتا ہوں کہ اس کی جنگ کا طریقہ کار درست نہیں تھا مگر اسے سزا کوئی عدالت دے سکتی تھی، امریکا نہیں۔

ایبٹ آباد آپریشن کے حوالے سے بی بی سی نے پانچ سوال اٹھائے تھے جن کا جواب کسی نے نہیں دیا تھا۔ وہ پانچ سوال یہ تھے اگر امریکی ہیلی کاپٹر آپریشن کے دوران تکنیکی خرابی کی وجہ سے گر نہ پڑتا تو کیا اسامہ زندہ گرفتار کیا جاتا؟ (خاموشی) اسامہ کی بیوہ اور بچوں نے ایبٹ آباد کمیشن کو کیا بتایا تھا؟ (خاموشی) ہیلی کاپٹر کا حادثہ نہ ہوتا تو کیا اسامہ کے قتل کی خبر سامنے آتی؟ کیا پاکستان میں واقعی فوج یا حکومت کو اس کارروائی کی پیشگی اطلاع نہیں تھی؟ (خاموشی) کیا امریکی میرین فوجی اپنے ساتھ دنیا کا جدید ترین سامان تو لائے تھے لیکن سیڑھی لانا بھول گئے تھے جس کی وجہ سے انہیں اسامہ کے کمپائونڈ کی دیوار بارود سے گرانا پڑی؟ (خاموشی)

سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ شہزادہ ترکی الفیصل نے کہا تھا ’’معلوم نہیں کہ ایبٹ آباد آپریشن میں القاعدہ رہنما اسامہ بن دلادن کو گرفتار کرنے کے بجائے قتل کیوں کیا گیا، ان کو دفن کرنے کے بجائے سمندر برد تو سمجھ میں آتا ہے کہ امریکا چاہتا تھا کہیں ان کا کوئی مزار نہ بنے‘‘۔ یعنی امریکا کو بھی علم تھا کہ مسلم امہ، اسامہ بن لادن کو کس نظر سے دیکھتی ہے۔ 

کوئی کچھ بھی کہے، ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ میں کچھ بھی لکھا ہو مگر یہ طے ہے کہ امریکا کی تمام تر سفارتی کوششوں کے باوجود حکومتِ پاکستان نےشکیل آفریدی کو رہا نہیں کیا۔ سننے میں یہاں تک آیا ہے کہ امریکا عافیہ صدیقی سے اُس کے تبادلے پر بھی تیار تھا مگر پاکستان نے انکار کر دیا۔ 

روسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق سی آئی اے نے پشاور جیل توڑ کر ڈاکٹر شکیل آفریدی کے فرار کی منصوبہ بندی مکمل کرلی تھی مگر بر وقت اطلاع ملنے پر منصوبے کو ناکام بنا دیا گیا۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو پشاور کی جیل سے کسی نامعلوم محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ ان تمام باتوں سے میں تو یہی اخذ کرتا ہوں کہ ہم پاکستانی بحیثیت قوم اسامہ بن لادن کے خلاف پاکستانی میں امریکا کی کارروائی کودرست نہیں سمجھتے۔ سو اگر عمران خان نے اسامہ بن لادن کو شہید کہہ دیا ہے تو کچھ غلط نہیں کیا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔