Time 28 جون ، 2020
بلاگ

کورونا سے سرمایہ داری کا نزع

کورونا کی وبا ووہان (چین) سے کیا پھوٹی کہ اپنے نہایت سرعت انگیز کردار کے باعث دُنیا کے کونے کونے میں آگ کی طرح پھیل گئی—فوٹو فائل

بوبونک طاعون کی ’’سیاہ موت‘‘ ابھی بھی دلوں کو لرزاتی ہے۔ جب یہ 1340میں منگولیا سے شروع ہو کر مغربی یورپ سے ہوتی ہوئی دُنیا کی ایک تہائی آبادی کو نگل گئی۔ اس قدرتی آفت کے بعد البتہ یہ ضرور ہوا کہ دُنیا بھر میں رعیتی جاگیرداری کی چولیں ہل گئیں۔

جب پرانے آقائوں اور جاگیرداروں نے کامیاب محنتیوں پہ پرانے جاگیردارانہ نظام کو برقرار رکھنا چاہا تو برطانیہ، فرانس، چین اور جگہ بہ جگہ کسان بغاوتیں ہو گئیں جن سے کسان راج تو قائم نہ ہوا، البتہ آزادی کے نظریات کے جلو میں سرمایہ داری کا ظہور ہوا جسے صنعتی انقلاب اور بعد ازاں نوآبادیاتی نظام نے تقویت بخشی اور وہ دُنیا پہ غالب ہو گئی۔

سرمایہ داری کے عروج کے ساتھ ہی محنت کشوں کی بغاوتیں اور تحریکیں شروع ہوئیں اور کئی وقت ایسے بھی آئے کہ کمیونزم کا بھوت ہر طرف منڈلانے ہی نہ لگا بلکہ کئی جگہ کامیاب ہوتے ہوتے رہ گیا یا پھر روس اور مشرقی یورپ تک پھیل گیا۔

سوویت یونین اور وارسا ممالک نے جہاں سرمایہ داری کا ریاستی اشتراکی متبادل پیش کیا وہیں عالمی استعماری قوتوں کے خلاف مشرق کی آزادی کی تحریکوں کو ایسی مہمیز لگائی کہ نوآبادیاتی نظام قصہ پارینہ ہوا اور آج پھر ہم امریکہ، برطانیہ اور یورپ میں نسل پرستی کے خلاف اُبھرتی مزاحمت کے دوران غلاموں کی تجارت کرنے والے سورمائوں کے مجسموں کو زمین بوس ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ اور ایسے وقت پر جب پوری سرمایہ دار دُنیا کوروناوائرس کی تباہ کاریوں کے ہاتھوں بے بس اور لاچار ہوئی جاتی ہے۔

سرمایہ داری نظام کے لیے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے اور بہت سے مغربی مفکرین اور معیشت دان سرمایہ داری نظام کے انہدام یا پھر بعد از سرمایہ داری دُنیا کی پیشین گوئی کرنے پہ مجبور ہو گئے ہیں۔ 1930 کے گریٹ ڈپریشن یا عظیم کساد کے دوران تو جان مینارڈ کینز کا فارمولا کام آیا، امریکہ اور برطانیہ نے خوب نوٹ چھاپے اور تباہ حال منڈی کی معیشت کے پہیے کو ریاستی مداخلت کے گناہ سے پھر سے بمشکل چالو کیا۔

اسی طرح 2008 کے مالیاتی بحران کے دوران جب بڑی بڑی کارپوریشنز دیوالیہ ہونے لگیں تو ریاستی بانڈز کو قومیا لیا گیا، مرکزی بینکوں نے نوٹ چھاپے اور اپنی اپنی وزارتِ خزانہ کے حوالے کیے اور اس اُمید پر کہ مستقبل کی مالیاتی بحالی ان قرضوں کو چکا دے گی، لیکن 12 برس گزرنے پر قرضے کم ہونے کی بجائے 72 کھرب ڈالر سے بڑھ گئے۔

کورونا کی وبا ووہان (چین) سے کیا پھوٹی کہ اپنے نہایت سرعت انگیز کردار کے باعث دُنیا کے کونے کونے میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ ایسی پھیلی اور اس وسعت سے کہ بڑے بڑے طاقتور ملکوں کی حکومتیں لڑکھڑا گئیں، معیشتوں کا پہیہ جام ہو گیا، بڑی بڑی کارپوریشنز کنگال ہوئیں یا ہونے کو ہیں، بڑے بڑے کاروبار زمین بوس ہوئے۔

کہا جا رہا ہے کہ اب تک عالمی منڈی سے 70 کھرب ڈالر صاف ہو گئے۔ اور ایک بار پھر مرکزی بینک نوٹ چھاپنے میں لگ گئے۔ اور وزارت ہائے خزانہ کو بانڈز مارکیٹ کو قومیانہ پڑا اور مرکزی بینکوں سے نوٹوں کی ریل پیل ہو گئی۔ مارکیٹ کے چلن کو دفناتے ہوئے، کمیونزم کے نسخے کو استعمال کرتے ہوئے نہ صرف نزع کی حالت سے دوچار سرمایہ داری کو جو ٹیکے لگائے جا رہے ہیں، اُن سے صحتیابی ہوتی نظر نہیں آتی۔ 

سرمایہ داری تو چلتی ہی اس برتے پہ ہے کہ وہ قوتِ محنت کا استحصال کر کے زائد قدر یعنی بے معاوضے والی محنت سے حاصل ’’منافع‘‘ سے اپنا شکم بھرے اور آدھی اُجرت پانے والے محنت کار اپنی ہی بنائی اشیا کو منڈیوں سے مہنگا خرید کر سرمایہ داری کے شیطانی چکر کو جاری رکھیں۔

اب اگر ریاست ہی نے مزدوروں اور بیروزگاروں کو اُجرتیں دینا ہیں اور ریاست ہی نے سرمایہ دار کارپوریشنز کو نہایت مہنگے مالیاتی ٹیکے مفت لگانا ہیں تو سرمایہ داری نظام کے پلے کیا رہا؟

ایسے میں کورونا کی آفت ہے کہ سانس لینے نہیں دے رہی۔ جنہوں نے اسے نزلہ زکام سمجھا اور احتیاطی لاک ڈائون سے ہچکچاتے رہے وہ اس کا زیادہ شکار ہو گئے اور جنہوں نے پاکستانی حکومت کے اشتہاری بیانیے ’’کاروبار کھلنا معاشی ضرورت ہے‘‘ کی طرح جلدی میں لاک ڈائون اُٹھائے، اُنہیں پھر سے سخت بندشیں لگانا پڑ رہی ہیں۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ تحریکِ انصاف والے وزیراعظم عمران خان کے دعوے کہ دُنیا اُن کی حکمتِ عملی پہ کام کر رہی ہے کوئی مضحکہ اُڑائے بھی تو کیا؟

کورونا کے بارے میں بے پر کی سازشی تھیوریز بھی بہت چلائی گئیں کہ اس کے اصل محرکات و اسباب کی جانب توجہ نہ کی جا سکے۔ایسے میں پاکستان میں جو سیاسی بندر تماشا چل رہا ہے اُسے اس کی کیا خبر۔ غریبوں کے غم میں مگرمچھ کے آنسو بہانے والوں نے مافیاز کو تو کیا لگام دینی تھی، اُلٹا تیل کی قیمتوں کا بم عوام پر گرا کر تیل کے ذخیرہ اندوزوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔

سوال صرف یہ پوچھنا ہے کہ کورونا کی آفت کے باوجود تمام حکومتوں کا صحت کے لیے آئندہ برس کا بجٹ جی ڈی پی کا فقط 1.1 فیصد (50 ارب روپے) ہے جو کہ تقریباً گزشتہ برس جیسا ہے۔ اب سرمایہ داری چلے یا کرئہ ارض باقی بچے، منڈی کا دھندہ چلے یا پھر انسانی ضرورتیں ماحولیاتی تقاضوں کے تابع رہتے ہوئے پوری ہوں۔

نفع خوری دُنیاوی ترقی کی ایجنسی ہو یا پھر انسانی فلاح کے تقاضے تاریخ کی قوتِ متحرکہ ہوں۔ اب کورونا کے نہ ختم ہونے والے طوفان میں سرمایہ داری کا سب کچھ بھرشٹ ہوتا نظر آ رہا ہے، لیکن جو ابھی نظر نہیں آ رہا وہ کیا ہوگا، یہ یقینی بات ہے کہ وہ سرمایہ داری نہیں جیسی کہ یہ ہے۔

اب انسانی اجتماعی نجات اور سربلندی کیا صورت لے گی۔ دیکھتے ہیں کہ کورونا کے بخار کے اُترنے پہ سرمایہ داری کا بیمار مرتا ہے یا پھر کیسے جیتا ہے؟

انت بحر دی خبر نہ کائی رنگی رنگ منایا


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔