بلاگ
Time 03 جولائی ، 2020

اگلے چھ ماہ میں مڈ ٹرم انتخابات؟

فوٹو: فائل

میں آج کل اسلام آباد میں ہوں۔ زیادہ وقت قومی اسمبلی کی راہداریوں میں گزر رہا ہے۔ عجیب و غریب معاملات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ خاص طور پر بجٹ اجلاس تو بہت دلچسپ تھا۔

اپوزیشن کے ساتھ ایک بار پھروہی کچھ ہوا جو چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں ہوا تھا۔ بلکہ اُس سے بھی خراب تر۔ خود شہباز شریف اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ آصف علی زرداری دکھائی نہیں دیے۔ یہ سوال ہر زبان پر ہے کہ آخر اپوزیشن 119پر کیسے ڈھیر ہو گئی۔

اپوزیشن کے پاس تو ووٹ 158تھے، اختر مینگل کی شمولیت کے بعد وہ 162ہو چکے تھے۔ سوال اہم ہے کہ اپوزیشن کے ممبران کو کس نے اجلاس میں جانے سے روک دیا تھا۔ نہ نون لیگ کے ارکان پورے نہ پیپلز پارٹی کے، اپوزیشن کے نئے اتحادی اختر مینگل بھی اجلاس میں نہ آئے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے ارکان بھی پورے نہیں تھے۔

بظاہر حکومت کے لئے یہ بجٹ اجلاس مشکل ترین مرحلہ تھا جس میں اس کے اپنے ارکان نہیں آ سکے جن میں کچھ کو کورونا ہو چکا تھا اور کچھ سیاسی کورونا کا شکار ہو چکے تھے مگر حکومتی ارکان بالکل مطمئن تھے اور اپوزیشن والے بھی۔

ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ

دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

یہ سوال میں نے بجٹ کے دوران پورے آٹھ گھنٹے بدستوراسپیکر کے فرائض سر انجام دینے والے امجد علی خان سے کیا تو ہنس کر کہا، جو کام میرا تھا میں نے پورا کیا۔ بجٹ پاس ہوگیا۔ کیسے ہوا کس طرح ہوا اس کی تفصیل اب تاریخ کا حصہ ہے۔ پھر کہنے لگے، میری تو عمران خان سے مراد سعید نے شکایت کی کہ اس نے مجھے ٹائم نہیں دیا اور بلاول بھٹو کو ٹائم دیا جس پر مجھے عمران خان کو کہنا پڑا ’’اسپیکر اپوزیشن کا بھی ہوتا ہے‘‘۔

میں نے قومی اسمبلی ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری سے بھی یہی سوال کیا تو وہ کہنے لگے کہ یہ سوال تو اپوزیشن سے کرنا چاہئے۔ اپوزیشن ارکان سے پوچھ گچھ کی تو پتا چلا دونوں بڑی پارٹیوں میں غیر علانیہ فارورڈ گروپ موجود ہیں۔

ضرورت پڑی تو عمران خان کی حمایت میں وہ فارورڈ گروپ سامنے آ جائیں گے۔ ایک فارورڈ گروپ پنجاب اسمبلی میں بھی موجود ہے، اس کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی کوششوں سے بنا ہے مگر اسے بھی بیک گرائونڈ میں رکھا گیا ہے۔ یہ گروپ اس وقت سامنے آئیں گے جب اپوزیشن نے یا اتحادیوں نے حکومت کو گرانے کی کوشش کی۔

بےشک ان دنوں عمران خان سے سعودی عرب اور امریکہ ناراض ہیں۔ بہت سی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قاسم خان سوری نے اسپیکر کی کرسی پر بیٹھ کر کہا، ’’پاکستان اسرائیل کو کبھی ایک ملک تسلیم نہیں کرے گا۔ اس کی حیثیت ایک قابض کی ہے۔ انہوں نے ہمارے فلسطین کی زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔ میرا اس اسمبلی کی وساطت سے آپ سے وعدہ ہے کہ فلسطین پر قبضے کے خلاف ہماری جدوجہد جاری رہے گی‘‘۔

وہ طاقتیں جو عمران خان کو اپنوں سے مشورے دلا رہی ہیں کہ ہمیں اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہئے اور اس حوالے سے جنہیں عمران خان سے بہت توقعات وابستہ تھیں وہ مکمل طور پر مایوس ہو چکی ہیں۔ اُن طاقتوں کو ایک اور توقع یہ تھی کہ عمران خان آئیں گے تو سی پیک رول بیک کر دیا جائے گا مگر عمران خان تو اس کوشش میں ہیں کہ وہ اسی سال سی پیک منصوبے کا افتتاح کریں۔

انہوں نے جنرل عاصم سلیم باجوہ سے کہہ دیا ہے کہ چین سے گوادر جانے والے موٹروے کو ہر حال میں اس سال مکمل ہو جانا چاہئے۔ عین ممکن ہے کہ سی پیک کی ہمیں ایک قیمت یہ بھی ادا کرنا پڑے کہ عرب ممالک میں ہمارے جو لوگ کام کرتے ہیں، کچھ ممالک انہیں واپس پاکستان بھجوا دیں۔

عمران خان اپنی تمام تر کوششیں کر چکے ہیں مگر مجموعی طور پر ملک کے حالات بہتر نہیں ہوئے۔ بے شک اس میں بہت سی آسمانی آفتیں بھی موجود ہیں مگر زمینی حقائق بھی وہ دیکھ رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے اگر انہیں کورونا سے تھوڑی سی نجات مل گئی تو وہ اگلے چھ ماہ میں مڈ ٹرم انتخابات کرا دیں گے۔

وہ حکومت توڑ کر لوگوں کو بتائیں گے وہ کیا وجوہات تھیں جن کے سبب ’’نیا پاکستان‘‘ نہیں بن سکا۔ کن لوگوں اور کن چیزوں نے ان کے ہاتھ باندھ رکھے تھے۔ وہ کون لوگ ہیں جن کی وجہ سے عوام تکلیف میں ہیں۔ کیسے پٹرول کی قیمت میں یک دم پچیس روپے کا اضافہ ہو گیا۔ کیسے چینی اور آٹا مہنگا کیا گیا۔ وغیرہ وغیرہ۔

عمران خان سے کئی غلطیاں بھی ہوئی ہیں۔ پہلی غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نےجن ٹیکنو کریٹس کو اپنا اسپیشل اسسٹنٹ لگایا، انہیں وفاقی سیکریٹری لگانا چاہئے اور اپنے ساتھ صرف سیاسی لوگ رکھنے چاہئیں تھے۔ آئین کے تحت وزیراعظم کو اختیار ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو وفاقی سیکریٹری کے عہدے پر تعینات کر سکتا ہے۔ ماضی میں کئی مثالیں موجود ہیں۔ معروف صحافی حسین حقانی کو انفارمیشن سیکریٹری لگایا گیا تھا۔

یہ بہت ضروری عمل تھا۔ غور سے دیکھا جائے تو عمران خان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بیورو کریسی رہی۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہر معاملہ میں عمران خان کو کہا ’’آپ یہ بھی نہیں کر سکتے، آپ وہ بھی نہیں کر سکتے‘‘۔ عمران خان سے دوسری غلطی یہ ہوئی کہ بیورو کریسی نے عمران خان کو اپنے وزیروں کے خلاف بھڑکایا کہ یہ لوگ افسروں سے غلط کام کرائیں گے اور عمران خان نے ان کے متعلق باقاعدہ خفیہ رپورٹس لینے کاکام شروع کرا دیا.

جس سے وزارتوں کی کارکردگی خراب ہوئی۔ کئی لوگوں کے متعلق غلط رپورٹنگ بھی کی گئی، جیسا کہ اسد عمر اور عامر کیانی کا معاملہ ہے۔ آج عمران خان جان چکے ہیں کہ ان کی ٹیم میں اسد عمر سے بہتر اور کوئی نہیں مگر اب دیر ہو چکی ہے۔

اب صرف یہی صورت ہے کہ عوام ایک بھاری مینڈیٹ کے ساتھ عمران خان کو دوبارہ منتخب کریں۔ مجھے تو کوئی اور حل دکھائی نہیں دے رہا۔ پتا نہیں ارشاد بھٹی کے باس کیا سوچتے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔