08 جولائی ، 2020
موجودہ حکومت کے 2 سال کے دوران بیوروکریسی میں ہونے والی بار بار کی تبدیلیوں نے نہ صرف انتظامی معاملات کو متاثر کیا ہے بلکہ حکام بھی میوزیکل چیئر جیسی صورت حال سے پریشان ہیں۔
خیال رہے کہ تحریک انصاف حکومت کے گذشتہ دوسال میں صرف فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے 4 چیئرمین اور 2018ء سے اب تک پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن(ایچ ای سی) کے 9 سیکرٹری تبدیل ہوچکے ہیں۔
دی نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق مرکز اور پنجاب میں بیوروکریسی میں تبدیلیوں کی وجہ سے گورننس کو اس قدر مشکلات سے دوچار کردیا ہے کہ خفیہ ادارے بھی اب اس ضمن میں اپنی رپورٹس میں تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
کابینہ ذرائع کے مطابق رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اہم عہدوں پر فائز افسران جو سیکرٹریٹ اور فیلڈ میں ہیں انہیں جلد تبدیل کرنے سے گورننس بری طرح متاثر ہورہی ہے۔
ایک عہدیدار کے مطابق وفاقی حکومت نے چیئرمین ایف بی آر کو چوتھی مرتبہ تبدیل کرتے ہوئے نوشین امجد کی جگہ کسٹمز سروسز کے جاوید غنی کو تعینات کیا ہے، ایسی صورت حال میں ایف بی آر کس طرح کارکردگی دکھا سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق صحت کے شعبے کا بھی یہی حال ہے اور حکومت نے گزشتہ تین ماہ کے دوران چار وفاقی سیکرٹری صحت تبدیل کیے ہیں، ڈاکٹر ملک اللہ بخش کو مارچ کے آغاز میں اس وقت عہدے سے ہٹایا گیا جب کورونا وائرس کا آغاز ہوا تھا اور ان کی جگہ ڈاکٹر سید توقیر شاہ کو تعینات کیا گیا، تاہم انہیں بھی ایک ہفتے کے بعد ہی عہدے سے ہٹادیا گیا۔
ذرائع کے مطابق انہیں ہٹانے کی وجہ سیاسی نوعیت کی تھی، ان کی جگہ ڈاکٹر تنویر قریشی کو تعینات کیا گیا مگر چند ہفتوں کے اندر ہی انہیں بھی تبدیل کردیا گیا اور ان کی جگہ گزشتہ ماہ عامر اشرف خواجہ کو تعینات کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ وفاقی حکومت اب تک 5 انسپکٹر جنرلز اور چار چیف سیکرٹریز بھی تبدیل کرچکی ہے، چیف سیکرٹری اعظم سلیمان جنہیں گزشتہ برس انتظامیہ کو سیاست سے پاک کرنے کے اعلانات کے دوران تعینات کیا گیا تھا، انہیں 4 ماہ بعد ہی عہدے سے ہٹادیا گیا۔
چیف سیکرٹری اعظم سلیمان نے جن افسران کو ہٹایا تھا وہ دوبارہ ان کے ہٹتے ہی واپس آگئے۔
ذرائع کے مطابق بیوروکریسی میوزیکل چیئرز کی بدترین مثال پنجاب کے سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کے عہدے کی ہے، ستمبر 2018 سے اب تک 9 سیکرٹریز ہائر ایجوکیشن تبدیل کیے جاچکے ہیں۔
محکمہ آبپاشی پنجاب بھی شدید متاثر ہے کیوں کہ اس میں 11 سیکرٹریز کو عثمان بزدار کی انتظامیہ کے آنے کے بعد تبدیل کیا گیا ہے، اگست میں سیکرٹری آبپاشی شیر عالم محسود تھے، ان کی جگہ نومبر 2018 میں سید علی مرتضیٰ کو تعینات کیا گیا،پھر انہیں اپریل 2019 میں تبدیل کرکے ان کی جگہ احمد جاوید قاضی کو لگایا گیا، جس کے بعد جولائی 2019 میں ان کی جگہ سیف انجم کی تعیناتی کی گئی، جنہیں ایک ماہ بعد ہی ہٹا کر احمد جاوید قاضی کو تعینات کیا گیا۔
بعد میں یہ ٹرانسفر آرڈر منسوخ کردیا گیا اور دسمبر 2019 میں محکمہ آبپاشی سید علی مرتضٰی کو دیا گیا، فروری، 2020 میں زاہد زمان کو نیا سیکرٹری بنایا گیا لیکن پھر جون 2020 میں سیف انجم کی تعیناتی کردی گئی۔
راولپنڈی ڈویژن جو کہ سب سے زیادہ حساس علاقہ ہے، وہاں پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے بعد 4 کمشنروں کی تعیناتی کی جاچکی ہے۔
محکمہ خوراک میں پہلے شوکت علی کی جگہ نسیم صادق کی تعیناتی کی گئی جنہیں دو ماہ بعد تبدیل کرکے ان کی جگہ ظفر نصراللہ کو لایا گا، پھر انہیں بھی چارماہ بعد تبدیل کردیا گیا اور ان کی جگہ وقاص محمود کی تعیناتی کی گئی، جو کہ سابق چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خان کے داماد ہیں۔ اب گزشتہ دنوں انہیں بھی تبدیل کردیا گیا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ گندم اسکینڈل کی تحقیقاتی کمیٹی نے بھی سیکرٹری خوراک کی جلد تبدیلیوں پر تنقید کی تھی اور ان تبدیلیوں کو گندم بحران کی اہم وجہ قرار دیا گیا۔
اس کے علاوہ کسی بھی سیکرٹری داخلہ کی مدت 4 ماہ سے زیادہ نہیں رہی، پہلے حکومت نے یوسف نسیم کھوکھر کو سیکرٹری داخلہ تعینات کیا اس کے بعد ان کی جگہ اعظم سلیمان کی تعیناتی کی، پھر ان کی جگہ یوسف کھوکھر کو لگایا گیا لیکن پھر دو ماہ بعد اعظم سلیمان کو دوبارہ یوسف نسیم سے تبدیل کردیا گیا۔
میوزیکل چیئرز وفاقی وزارت کامرس میں بھی جاری رہی اور دو سال کے اندر چار وفاقی سیکرٹریز تبدیل کیے جاچکے ہیں،ان افسران میں یونس داگا، احمد نواز سکھیرا، یوسف نسیم کھوکھر اور صالح فاروقی شامل ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس صورت حال سے تحریک انصاف کے بہت سے ارکان بھی پریشان ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ اس طرح پارٹی کے منشور اور اصلاحاتی ایجنڈے پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا۔