22 جولائی ، 2020
سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران سینیئر صحافی مطیع اللہ جان کو جواب جمع کروانے اور وکیل کرنے کے لیے مہلت دے دی۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مطیع اللہ جان کے خلاف توہین عدالت ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس نے سماعت کے دوران مطیع اللہ جان کے اغوا کا بھی نوٹس لے لیا اور ریمارکس دیے کہ مطیع اللہ جان کو اغوا کیا گیا، حکومتی ادارے کیا کررہے ہیں؟ اسلام آباد پولیس نے بازیابی کے بعد سب سے پہلے مطیع اللہ جان کا بیان کیوں قلم بند نہ کیا؟
اٹارنی جنرل نے روسٹرم پر آکربتایا کہ بیان اب تک ریکارڈ نہیں ہوسکا۔
چیف جسٹس نے مطیع اللہ جان کا فوری بیان ر یکارڈ کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد کو رپورٹ سمیت طلب کر لیا۔
سپریم کورٹ بار کے وکیل لطیف کھوسہ نےکہا کہ مطیع اللہ جان کو دن دیہاڑے اٹھا لیا گیا، کیا یہ بنانا ری پبلک ہے؟ ویڈیو موجود ہے، اغواء کاروں کو شناخت کیا جانا چاہیے۔
چیف جسٹس نے مطیع اللہ جان سے استفسار کیا کہ کیا انہوں نے توہین عدالت کے مقدمے میں جواب جمع کرایا؟ تو مطیع اللہ جان نے جواب دیا کہ انہیں اغواء کرلیا گیا تھا، اس لیے انہیں جواب جمع کروانے کا موقع نہیں مل پایا، وکیل کرنے اور جواب جمع کروانے کے لیے وقت دیا جائے۔
مطیع اللہ جان نے شفاف ٹرائل کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ٹرائل فیئر ہو گا، ہم یہاں اسی لیے بیٹھے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ توہین عدالت نوٹس سے اغوا کے معاملے کا کیا تعلق ہے؟ تو مطیع اللہ جان نے عدالت کو بتایا کہ انہیں کس طرح دھمکیاں دی گئیں، کیا ہوتا رہا، ان کے اغوا کا توہین عدالت ازخود نوٹس کیس سے تعلق ہے۔
عدالت نے مطیع اللہ جان کو تحریری طور پر بیان جمع کروانے کاحکم دیتے ہوئے سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز مسلح افراد نے دن دیہاڑے صحافی مطیع اللہ جان کو اغوا کیا تھا اور 12 گھنٹے بعد اسلام آباد سے 70 کلومیٹر دور فتح جنگ کے علاقے میں چھوڑا تھا۔